• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس تاثر کے حق میں کئی شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کے قومی سلامتی اور اقتصادی ترقی کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مہم کا سرخیل بھارت ہے جو کہیں خفیہ اور کہیں ظاہری اقدامات کے ذریعے مسلسل سرگرم ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی راہداری اور اقتصادی تعاون کے سمجھوتے زیادہ پرانی بات نہیں جن سے وہ پاکستان کو شامل کئے بغیر اس کے بیسیوں اقتصادی منصوبوں کی شراکت دار وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنا اور اثر و رسوخ بڑھانا چاہتاہے۔ اس کا دوسرا اہم منصوبہ امریکی صدر اوباما کی مدد سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شامل ہونے کی تگ و دو ہے جس کیلئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ پہنچ چکے ہیں۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ سمجھوتوں کے بارے میں ان دونوں ممالک نے اپنے وضاحتی بیانات میں پاکستان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور پاکستان میں افغان سفیر نے ایک ٹی وی انٹرویو میں صاف کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دینا خود افغانستان کے مفاد میں نہیں ۔ پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے بھی جیو ٹی وی کے ایک پروگرام میں واضح کیا ہے کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور ان ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون پراسے کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بھارت اور افغانستان کے تعلقات پر بھی کوئی تشویش نہیں۔ یہ موقف پاکستان کی جانب سے اچھی اور پرامن ہمسائیگی کے مثبت حوالے سے اس کی مستقل پالیسی کا نمایاںوصف ہے لیکن زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور بھارت کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ بھارت امریکہ کو چینی اثر و رسوخ کا خوف دلا کر خود اس خطے کی سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں سب سے آگے بڑھنے کیلئے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت اس کا پہلا ہدف ہے ۔ موقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک اداریے میں اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت اس گروپ میں شمولیت کا کسی طور اہل نہیں کیونکہ اس نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کئے نہ 48 رکنی این ایس جی کے معیار پر پورا اترتا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اخبار نے صدر اوباما کی جانب سے بھارت کو ضروری شرائط سےاستثنا دلانے کی حمایت کی بھی مذمت کی اور مشورہ کہ بھارت اس سلسلے میں پاکستان اور چین کی رضا مندی حاصل کرے۔ بھات نیوز کلیئر سپلائر زگروپ کی رکنیت اس لئے بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کوگروپ کا رکن بننے سے روک سکے کیونکہ گروپ کے ارکان کے اتفاق رائے کے بغیر کوئی ملک اس کا نیا رکن نہیں بن سکتا پاکستان بھی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کا امیدوار ہے۔ امریکہ بھارت کی پشت پناہی تو کر رہا ہے مگر پاکستان کے معاملے میں خاموش ہے اگر یہ ہماری خارجہ پالیسی کی کمزوری کا نتیجہ ہے تو اسے دور کرنا چاہئے اور کسی دبائو میں آئے بغیر امریکہ سے دو ٹوک بات کرنی چاہئے۔ امریکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم کی ملاقات منگل کو متوقع ہے جس میں پاکستان کے بارے میں بھی بات چیت ہوگی بھارت امریکہ پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ وہ پاکستان کوجدید ہتھیار فروخت نہ کرے ۔ چنانچہ پاکستان کو ایف16 طیاروں کی فراہمی تعطل کا شکار ہے جبکہ مودی کے دورے کے دوران امریکہ بھارت دفاعی معاہدے کا قوی امکان ہے۔ امریکہ کا یہ دوہرا معیار برصغیر میں مستقل امن کے تقاضوں کے منافی ہے۔ امریکہ ایک جانب دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان کی جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے مفادات کو نظر انداز بھی کرتا ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ملک کی خارجہ پالیسی کو حقیقی معنوں میں قومی امنگوں کا آئینہ دار بنانا ہوگا اور اردگرد کے حالات پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔
تازہ ترین