• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی جمہوری تاریخ بہت دلچسپ اور تیز رفتار ہے، اس کے ساتھ ہی یہ کچھ زیادہ ہی عوامی اور وسیع المشرب بھی ہے۔ تاریخ عالم کی سب سے بڑی استعماری قوت برطانیہ کے خلاف طویل او ر خون ریز جنگ کے بعد اس نے برطانوی عفریت سے نجات حاصل کی۔ آزادی کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے صدارتی جمہوریت کا راستہ اختیار کیا۔ جارج واشنگٹن، برطانیہ کے خلاف لڑنے والی امریکی فوج کے سپہ سالار تھے اور وہی امریکہ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آزادی کے فوراً بعد 4 مارچ 1789ء کو نیا آئین نافذ ہوا۔ ابتدا میں 13 ریاستوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں شمولیت اختیار کی تھی یعنی جارج واشنگٹن کے عہدہ صدارت میں صرف 13ریاستیں تھیں‘ یہ تعداد اب 50ریاستوں تک پہنچ چکی ہے۔ جارج واشنگٹن کو اتفاق رائے سے یہ عہدہ پیش کیا گیا تھا۔
1789 میں جارج واشنگٹن جب صدر منتخب ہوئے، تب امریکہ میں ووٹ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر نہیں ڈالے جاتے تھے۔ صرف سفید فام امریکیوں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ سفید فام بھی صرف وہی ووٹر ہو سکتا تھا جس کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق ہوں۔ عورتوں کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ اگرچہ عورت دولت مند اور وسیع قطعہ اراضی کی مالک ہی کیوں نہ ہو۔ شروع سے ہی امریکہ وسیع و عریض ملک تھا۔ فاصلے طویل تھے اور اس وقت ذرائع آمدورفت بہت کم اور سست رفتار تھے۔ گھوڑے ہی آمدورفت کا تیزترین ذریعہ تھے۔ذرائع ابلاغ ناپید، ریڈیو، نہ ٹیلی وژن، اخبارات تھے تو ان کی اشاعت بھی بہت تھوڑی وہ بھی زیادہ مقامی خبروں تک محدود رہتے۔ ان حالات میں صدارتی امیدوار کیلئے ووٹر تک رسائی مشکل تھی اور الیکشن کے مرکزی نظام وضع کرنا اور ووٹوں کی گنتی ایک دشوار مرحلہ تھا۔ اس کا یہ حل نکالا گیا کہ ہر ریاست صدارتی امیدوار کا جداگانہ اہتمام کرتی اور اپنے ریاستی نتیجے کے مطابق جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرتا اس کو ریاست کے سارے کے سارے ’’الیکٹورل کالج‘‘ کی حمایت حاصل ہو جاتی۔ الیکٹورل کالج یا نمائندگان کی تعداد ہر ریاست کے ممبران کانگریس (پارلیمنٹ) کے برابر ہوتی، کانگریس کے دو ایوان ہیں۔ ایک ایوان نمائندگان جن کی تعداد ریاست کی آبادی کے مطابق ہے،دوسرا سینیٹ جس میں ہر ریاست کے دو ممبران سینیٹ ہوتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کو ووٹ پڑتے، جو امیدوار جیت جاتا، ریاست معین تعداد کے مطابق ا س کے حامی نمائندگان نامزد کر دیئے جاتے۔ یہ نمائندگان دسمبر کے دوسرے منگل کو ڈسٹرکٹ ’’کولمبیا‘‘ کے ایک بڑے ہال میں جمع ہو کر حق رائے دہی استعمال کرتے۔یہ پابند تھے کہ جس امیدوار کیلئے ریاست نے انہیں بھیجا ہے اسی کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں۔ عام طور پر پاپولر ووٹ (مقبول عام) اور الیکٹورل کالج کے نتیجہ ایک اور عموماً یکساں ہوتا ہے، پھر بھی اب تک جو 44 صدر منتخب ہوئے ہیں، ان میں چار صدر ایسے تھے جن کی ووٹوں کی تعداد کم تھی مگر وہ ریاستوں کے بھیجے نمائندوں یا الیکٹورل کالج میں اکثریت کی وجہ سے صدر بن گئے۔ ماضی قریب میں 2000 میں منعقد ہونے والے الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار ’’الگور‘‘ ساڑھے پانچ لاکھ ووٹوں کی اکثریت کے باوجود ریپبلکن پارٹی کے جارج ڈبلیو بش سے شکست کھا گئے۔ اس لئے کہ ’’الگور‘‘ کو الیکٹورل کالج کی طرف سے 266 کی حمایت حاصل تھی اور بش 271 کے ساتھ صدر منتخب ہو گئے۔
آج جبکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل ہے تو معمولی ردوبدل کے ساتھ یہ قدیم طریقہ انتخاب آج بھی امریکہ میں رائج ہے۔ اب الیکٹورل کالج 538 افراد پر مشتمل ہے، 435 ایوان نمائندگان اور 100 سینیٹ کے ممبران کے مجموعے کے برابر، 3ووٹ دار الحکومت کو حاصل ہیں، مقبول ووٹوں کی اکثریت کے باوجود 538نمائندگان میں سے 51 فیصد حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔ پارٹیوں میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی کیلئے بھی اس سے ملتا جلتا طریقہ کار رائج ہے، اس میں فرق یہ ہے کہ کوئی امیدوار ریاست میں جتنے فیصد ووٹ حاصل کرے گا ان حاصل کردہ ووٹوں کے مطابق ریاست سے آنے والے وفد کے ارکان کی تعداد اسے حاصل ہو جائے گی۔ فرض کریں ایک ریاست میں وفد (Delegate)کی تعداد دس ہے وہاں ہیلری کلنٹن کو چھ لاکھ ووٹ ملے اور یہ مخالف امیدوار برنی سینڈرز نے چار لاکھ ووٹ لئے تو کلنٹن کوچھ Delegate مل جائیں گے اور برنی سینڈرز چار ۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے پچاس ریاستوں سے آنے والے ڈیلیگیٹ کی تعداد 4765 ہے‘ نامزدگی جیتنے کیلئے 2382 ڈیلیگیٹ کی ضرورت ہوگی۔آج تک کے نتائج کے مطابق ہیلری کلنٹن کو 2316ڈیلیگیٹ کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ اسے جیتنے کیلئے مزید 67ڈیلیگیٹ کی ضرورت ہے جبکہ برنی سینڈرز کو 1549کی حمایت حاصل ہے اور اسے جیتنے کیلئے مزید 834ڈیلیگیٹ درکار ہیں۔ آخری معرکہ 7جون کو یعنی آج ہونے والا ہے۔ جب کیلیفورنیا کے 546اور نیو جرسی کے 142 ڈیلیگیٹ کا انتخاب عمل میں آئے گا۔ یقیناً ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے ہیلری کلنٹن امیدوار بن جائیں گی۔ دوسری طرف ریبپلکن پارٹی کا امیدوار بننے کیلئے 2472 ڈیلیگیٹ میں سے 1237 کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اس پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی 1239 کی حمایت حاصل کر کے امیدوار بننے کی دوڑ جیت چکے ہیں۔ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے امیدوار کا باضابطہ اعلان نیشنل کنونشن میں کریں گی جہاں پچاس ریاستوں کے سارے ڈیلیگیٹ موجود ہوںگے۔ ریپبلکن پارٹی کا قومی کنونشن 18سے 21 جولائی تک ’’کلیولینڈ اوہائیو‘‘ میں منعقد ہوگا جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن 25سے 28 جولائی تک ’’پنسلوینیا‘‘ میں ہونے جا رہا ہے۔
اگرچہ امریکہ میں جمہوری نظام اس کی آزادی کے پہلے دن سے رائج ہے لیکن تب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔‘ صرف سفید فام مردوں کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ ان میں بھی صرف وہ جن کے پاس زمین کا حق ملکیت موجود ہو۔ عورتوں کو ووٹ کا حق 1920 میں دیا گیا اور سیاہ فام یعنی افریقن امریکیوں کو یہ حق 1965 میں حاصل ہوا۔ افریقن امریکی 13 فیصد آبادی کے ساتھ امریکہ کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ امریکہ میں سفید فام یورپی نژاد امریکنوں کی تعداد تقریباً 65 فیصد ہے‘ یہودیوں کی تعداد 3 فیصد اور اتنی ہی تعداد مقامی اور تارکین وطن مسلمانوں کی ہے۔ اسپینش بولنے والے ہمسایہ ملکوں سے آنے والوں کی بڑی تعداد امریکہ کی شہریت حاصل کر چکی ہے۔ اقلیتوں کی مجموعی تعداد تقریباً 35 فیصد ہے۔ سیاہ فام اقلیت کو غلامی سے آزاد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ انہیں ووٹ کا حق حاصل ہوئے صرف 43 برس ہوئے تھے کہ 2008 میں ان کا ایک خوش اطوار‘ پراعتماد اور باصلاحیت قانون دان بارک حسین اوباما‘ ڈیمو کریٹک پارٹی سے نامزدگی حاصل کر کے ملک کا صدارتی الیکشن جیت گیا۔ یہ امریکی معاشرے کا بہت ہی مثبت اور روشن پہلو ہے کہ وہ تعصبات سے پاک معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور ایسا جمہوری نظام تشکیل دیا جس میں سب کیلئے آج برابر کے مواقع دستیاب ہیں۔
روایتی طور پر دو صدیوں تک سفید فام کیتھولک عیسائی مرد ہی امریکہ کا صدر منتخب ہو سکتا تھا۔ بارک حسین اوباما پہلا استثنا ہے جس نے عورتوں اور اقلیتوں کیلئے بھی اعلیٰ سیاسی عہدہ حاصل کرنے کی راہیں کھول دی ہیں۔
امریکہ میں پہلی مرتبہ ایک عورت صدارتی انتخاب کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی حاصل کرنے کے قریب ہیں۔ یہ کوئی غیرمعروف خاتون نہیں ہیں بلکہ سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے امریکہ کی خاتون اوّل رہ چکی ہیں۔ نیویارک سے سینیٹر منتخب ہوئیں اور بارک حسین اوباما کے اولین عہدہ صدارت میں وزیر خارجہ بنا دی گئیں۔ اب ان کا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے آنے والے متوقع امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہونے جا رہا ہے۔ اس متوقع مقابلے کے نتیجے میں امید ہے کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہو جائیں گی۔

.
تازہ ترین