• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23؍مئی کی سہ پہر جب امریکی ڈرون کا نشانہ بننے والے طالبان رہنما ملّا اختر منصور کے حوالے سے اسلام آباد میں گو مگو کی کیفیت طاری تھی اور وزیر داخلہ اپنی اعصاب شکن پریس کانفرنس میں معاملہ کو حتی المقدور الجھانے میں مصروف تھے، ہمارے تینوں مشرقی اور مغربی ہمسائے (بھارت، افغانستان، ایران) تہران میں مفاہمت کی درجن بھر یادداشتوں پر دستخط ثبت کر رہے تھے جن میں اہم ترین دستاویز وہ ہے جس کے تحت بھارت نے ایرانی بندرگاہ چابہار کی اپ گریڈیشن کیلئے 500ملین ڈالر کی پیشکش کی ہے اور پاکستانی سرحد پر واقع ایرانی شہر زاہدان تک ریلوے ٹریک بچھانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ چابہار میں بھارتی دلچسپی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چرچا حالیہ سہ فریقی معاہدات کے بعد ہوا ہے۔ سلسلہ جنبانی 2003میں اس وقت ہوا تھا جب ایرانی صدر محمد خاتمی بھارت کے دورے پر تشریف لے گئے تھے۔ تاہم امریکی دبائو آڑے آیا اور عملی اقدامات کی راہ ہموار نہ ہو سکی تھی۔ 2012میں بھارت نے ہمت سے کام لیا اور امریکی پابندیوں کی پروا کئے بغیر ایک لاکھ ٹن گندم اس بندرگاہ کے راستے افغانستان بھجوا دی۔ یہ الگ بات ہے کہ تجربہ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہا تھا۔ ایران چاہتا ہے کہ چابہار کی صلاحیت کار ڈھائی ملین ٹن سے بڑھا کر ساڑھے بارہ ملین ٹن سالانہ کر دی جائے جس کیلئے 340ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پہلے ہی کی جا چکی ہے اور پروجیکٹ کو پرکشش بنانے کیلئے بندرگاہ کے گردونواح کے ایک وسیع علاقے کو فری ٹریڈ زون بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس منصوبے میں ایران کی دلچسپی اس لئے بھی ہے کہ یہ ملک کی گہرے پانیوں والی واحد بندرگاہ ہے۔ بندر عباس ایک بڑی اور مصروف بندرگاہ ضرور ہے اور فی الوقت ایرانی بحری تجارت کا 85فیصد ہینڈل کرتی ہے مگر اتھلے پانیوں کی وجہ سے وہاں ایک لاکھ ٹن اور زائد وزن کے جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے جنہیں یواے ای کی قریبی بندرگاہ لے جا کر سامان چھوٹے جہازوں پر منتقل کر کے بندر عباس لایا جاتا ہے۔بھارت پاکستان کے راستے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت چاہتا ہے جس کی اجازت سیکورٹی وجوہ کی بنا پر نہیں دی جا سکتی۔ فی الحال وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھارتی تجارت کا حجم محض آٹھ سو ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے جسے وہ دس بلین ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے اور پھر اس سے آگے یورپ اور پوری دنیا کھلی پڑی ہے۔ کھلی آنکھوں سے دیکھا جانے والا یہ خواب بے حد سہانا ہے مگر مشکلات اپنی جگہ پر ہیں اور وہ بھی پہاڑ جیسی۔ اوّل یہ کہ یہ سب کچھ افغانستان میں امن کی بحالی کے ساتھ بندھا ہوا ہے جس کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔ دوم ایران کے صوبہ سیستان، بلوچستان جہاں چابہار کی بندرگاہ واقع ہے، میں پھیلی بے چینی اور بدامنی سارے منصوبے کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ ایران بہ ذات خود بھارتی عزائم کی راہ کی بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے اور محض چند ملین ڈالر کی خاطر وہ یہ اہم بندرگاہ پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش نہیں کر سکتا۔ سرد و گرم زمانہ چشیدہ اور عشروں تک امریکی پابندیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا ایران، بھارت سے کچھ کم ایمبی شیئس نہیں۔ وسط ایشیا کی ریاستوں اور یورپ پر اس کی بھی نظر ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ چابہار اور اس کے حوالے سے بھارت، ایران اور افغانستان کے مابین طے پانے والی درجن بھر مفاہمتی یادداشتوں پر پاکستان کا ردّعمل کیا ہونا چاہئے؟ اس ضمن میں دو طرح کا انداز فکر موجود ہے۔ ایک کا خیال ہے کہ یہ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور اسے دبائو میں لانے کی سازش ہے جس میں بعض عالمی طاقتیں بھی شامل ہیں۔ خطہ کے مسلم ممالک کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر بھارت، پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ سب کچھ گوادر اور اکنامک کاریڈور کو ناکام بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اس سوچ کی بنیاد اس کانسپریسی تھیوری پر ہے کہ دنیا بھر میں ہر کسی کو پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں۔ گزشتہ پندھواڑے کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے اور ٹی وی مذاکرات پر پھر سے ایک نظر ڈال لیجئے، بدقسمتی سے اس سوچ کا پرچار نہایت شدومد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ’’دانشور‘‘ تو رہے ایک طرف، ہمارے سفارت کاروں نے بھی کچھ اسی قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے جسے نرم سے نرم الفاظ میں افسوسناک ہی کہا جا سکتا ہے۔ نہ جانے وہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں سانس لے رہے ہیں۔ ریاستوں کی سولو فلائٹس کا زمانہ لد چکا۔ یورپین یونین اور جی سیون کی مثال سامنے ہے۔ ترقی و خوشحالی کی مشترکہ حکمت عملی اپنا کر وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے جبکہ ترقی پذیر دنیا بدستور ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے۔ گو او آئی سی، سارک، ای سی او، عرب لیگ وغیرہ کا ڈول ڈالا گیا مگر سنجیدگی اور خلوص کا عنصر ناپید اور نتیجتاً ہم کہیں بھی نہ پہنچ پائے۔ سفارت کاری اور جہان بانی کا ادراک رکھنے والے بہ خوبی جانتے ہیں کہ علاقائی ریاستوں کی ترقی کا راز باہمی تعاون میں پنہاں ہے۔ پاکستان بہ وجوہ بتدریج تنہا ہوتا چلا آیا ہے جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان کے روایتی دوستوں کو زیر دام لانے میں کامیاب رہا، یہ ہماری سفارت کاری کی ناکامی تھی یا کچھ اور، اس کا تذکرہ پھر کبھی۔ فی الحال اتنا جان لیجئے کہ یہ صورتحال عین فطری ہے۔ ریاستوں کی باہم دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں۔ اپنے اپنے مفاد کا پالن ہر کوئی کرتا ہے۔ بھارت نے اگر افغانستان اور ایران کے ساتھ معاہدات کئے ہیں تو یہ اس کا استحقاق ہے، اگر وہ سعودیہ اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ روابط بڑھا رہا ہے تو بھی کچھ غلط نہیں کر رہا۔
چین کے ساتھ دوستی پر ہمیں بہت ناز ہے اور اکنامک کاریڈور کیلئے ہر کوئی رطب اللسان، کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے جا رہا ہے۔ ہم جذباتی لوگ ہیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر بہت دور تک چلے جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر چین اس منصوبے پر 46بلین ڈالر کی کثیر رقم خرچ کرنے جا رہا ہے تو پاکستان کے عشق میں نہیں بلکہ اپنے قومی مفاد میں جو سب ریاستوں کو یکساں عزیز ہوتا ہے اور ان کی تمام تر سیاسی، تزویری اور سفارتی کاوشیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔ خطہ کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والے ماہرین تو ایک اور عندیہ بھی دے رہے ہیں۔ انہیں گوادر کی طرح چابہار میں بھی چین دلچسپی لیتا دکھائی دے رہا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس ایرانی بندرگاہ کی اپ گریڈیشن میں بیجنگ کی سرمایہ کاری نئی دہلی کو بہت پیچھے چھوڑ جائے۔ ان کا تھیسس یہ ہے کہ اکنامک کاریڈور اور اس کے متعلقات کی کامیاب تعمیر و تکمیل کے بعد چین دائیں بائیں ضرور دیکھے گا اور اس نوعیت کے چھوٹے موٹے پروجیکٹ اس کیلئے چنداں مشکل نہیں ہوں گے۔ افغانستان اور ایران کو اکنامک کاریڈور سے جوڑنا اور چابہار کی اپ گریڈیشن ایک فطری عمل کے طور پر دیوار پر دکھائی دیتا ہے۔ وہ تو بھارت کو بھی جلد یا بدیر اکنامک کاریڈور کے بینی فشری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایسے میں چابہار سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسے چیلنج کے طور پر لینا چاہئے۔ اس سے ہمارے اندر نہ صرف منفیت در آئے گی بلکہ صلاحیتیں بھی غلط سمت میں استعمال ہوں گی۔ یاد رہے کہ قدرت نے دنیا کو نقشے پر پاکستان کو زبردست قسم کا پلاٹ عطا کر رکھا ہے۔ ہماری اسٹرٹیجک لوکیشن کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ ایران، افغانستان، سینٹرل ایشیا، یورپ، سب ہی راستے پاکستان سے ہو کر گزرتے ہیں اور کم خرچ بھی ہیں۔ قدرت کا عطا کردہ یہ سیوریج ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان مشرق اور مغرب کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہو گا۔ یاد رکھیں جس دن خطہ کی سیکورٹی صورتحال بہتر ہو گئی اور پاک بھارت تعلقات میں ٹھہرائو آگیا، چابہار کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا۔

.
تازہ ترین