• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر عارف علوی نے اپنے بیان کی وضا حت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سائفر سے متعلق میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔سائفر اگر عمران خان کا بیانیہ ہے تو سچا بیانیہ ہے، اگر میں سمجھتا سازش نہیں ہوئی تو سپریم کورٹ کو کیوں بھیجتا، میں نے سپریم کورٹ کو دلائل بھیجے کہ اس کو ثابت کرنا مشکل ہوگا‘‘۔اس وقت دراصل یہ کوشش ہورہی ہے کہ کسی طرح امریکہ بہادرکا نام ملک کی موجودہ سیاست سے باہر نکالا جائے مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ۔دونوں طرف سے کوئی بھی اس معاملے پر مٹی ڈالنے کوتیار نہیں۔کہتے ہیں اچھا بھلا سائفر کہیں فائلوں میں گم تھا ۔گرد جھاڑ کر باہر نکال لیا گیا ۔بہر حال اب تو یہ جن پھربوتل سے باہر نکل آیا ہے ۔اوپر سے اس وقت امریکہ بہادر سعودی عرب سے بھی ناراض ہوگیا ہے۔ناراض کیوں نہ ہو۔سعودی عرب اور روس کے بڑھتے ہوئے مراسم اس کیلئے بالکل ایسےہی ہیں جیسے یوکرائن پر حملے کے دن وزیر اعظم پاکستان کا دورہِ روس ۔ امریکی صدر نے ابھی پچھلے دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا کہ یوکرائن اور روس کی جنگ کی وجہ سے مغربی دنیا میں جو تیل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں ،انہیں کم کرنے کیلئے سعودیہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے مگر سعودی عرب نے الٹا اس میں کمی کا اعلان کردیا۔ امریکی صدر کو مجبوراًکہنا پڑا ہے کہ اس فیصلے کے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات پر نتائج مرتب ہوں گے۔امریکہ نے سعودی عرب پر روس کے سامنے جھکنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ امریکی حکام نے پیداوار میں کمی نہ کرنےپرولی عہد محمد بن سلمان کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی مگر اس نے انکار کردیا۔پہلی بارامریکہ بحران سے نمٹنے کیلئے اپنے تیل کے ذخائر استعمال کرنے پر غور کر رہا ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ کے پاس تیل کے کافی ذخائر موجود ہیں مگر امریکہ نے انہیں محفوظ کر رکھا ہے ۔ استعمال نہیں کرتا۔شاید دنیا کے ذخائر ختم ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ پنسلوانیا کے آئل کریک کے علاقے میں تیل کی دریافت کے بعد روس اور سعودیہ کے بعد اب امریکہ دنیا کا سب سے بڑا خام تیل پیدا کرنے والا ملک بن چکا ہے مگر امریکہ نے اپنے ذخائر سے ایک مخصوص حد تک تیل نکالا ۔وہ بھی عالمی خام تیل کا پندرہ فیصد تھا مگر اس میں امریکہ مسلسل کمی کرتا چلا گیا۔ امریکہ کی بہت سی ریاستوں میں تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں ۔اب دیکھتے ہیں کہ امریکہ سعودی عرب کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ وہاں حکومت گرانا اتنا آسان نہیں ہے۔ ویسے تو شاہ فیصل کی شہادت بھی تیل کے کسی مسئلےکی وجہ سے ہی ہوئی تھی۔

امریکہ سے محبت کرنے والے چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں امریکہ کو اور بدنام نہ کیا جائے ۔وہ ہمارا دوست ملک ہے ۔اس نے مشکل وقت میں ہماری مدد کی ہے ۔ ہمیں قرضے دئیے ہیں ۔ ہمیں ایف 16طیارے دئیے ۔ ان میں سے جو خراب کھڑے ہیں ،اب ان کے پرزے بھی دے رہا ہے ۔جہادِ افغانستان کے وقت اس نے ہمارا بڑا ساتھ دیا تھا ۔ دہشت گردی کے زمانے میں دہشت گردوں پر ڈرون حملے کئے تھے ۔امریکہ کے ہم پر اور بھی بہت احسانات ہیں ۔بقول فیضؔ

اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں

سو ان کی خواہش ہے کہ یہ ثابت ہو جائے ،عمرا ن خان کی حکومت کے خلاف امریکہ بہادرنےکوئی سازش نہیں کی۔ اپنے ایک معروف مذہبی سیاست دان بھی یہ جملہ کئی بارہا اپنے مخصوص انداز میںفرما چکے ہیں ۔وکی لیکس میں کہیں آیا تھا کہ انہوں نے ایک بار امریکی سفیر سے یہ درخواست کی تھی کہ انہیں پاکستان کا وزیر اعظم بنایا جائے ۔بہر حال یہ ان کا حق تھا اور ہے ۔وکی لیکس کا ذکر آیا ۔ذاتی طور پر میں کسی طرح کی لیکس پر کوئی اعتبار نہیں کرتا ۔ان دنوں تو ہر طرف لیکس ہی لیکس کا چرچا ہے ۔کہیں آڈیو لیکس کا شور ہے تو کہیں ویڈیو لیکس کا ۔میرے خیال میں پاکستانی قوم پر کسی طرح کی لیکس کے کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ ہمارے یہاںاکثر گاڑیوں کی کبھی ٹیوب لیک ہوجاتی ہے ،کبھی ٹائر لیک ہوجاتے ہیں ۔کسی کی آڈیو لیک ہو یا ویڈیو ،کیا فرق پڑتا ہے ۔ ای میل لیک ہونا بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں ۔ جب ای میل نہیں ہوتی تھی ، لوگ خط لکھا کرتے تھے ۔ اس وقت پاکستان کی 80 فیصد آبادی وہ خط ڈاکیے سے پڑھوایا کرتی تھی ۔انڈونیشیا کے صدر کی ایک بار کچھ تصویریں لیک ہو گئی تھیں جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ کسی غیر ملکی ایجنسی کے پاس ہیں تو انہوں نے خود ان تصویروں کی کاپیاں ملک میں تقسیم کرا دیں کہ ایسی باتوں کا ہمارے عوام پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا ۔ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے پختون خوا میں دہشت گردی کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سوات میں پھر سے دہشت گرددکھائی دینے لگے ہیں جس کے سبب وہاں امن جرگہ کے جلسے میں تقریباً سارا سوات جمع ہوا اور اعلان کیا کہ یہاں دوبارہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی اور انہیں یہاں آباد کیا گیا تو عوام جلسوں کی صورت میں اسلام آباد کارخ کریں گے۔ٹوئیٹر پر ’’سوات امن مانگ رہا ہے ‘‘ کا ٹرینڈ بہت پاپولر ہورہا ہے ۔مراد سعید نے کہا ’’اے پی ایس کے سانحہ کے بعد ہم نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنے بچوں کے جنازے نہیں اٹھائیں گے۔وہ آج پھر ہمارے سامنے لہولہان ہیں ‘‘۔بہر حال ایسا لگتا ہے ابھی تک امریکہ کی جنگ ختم نہیںہوئی۔افغانستان میں ستانوے فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر رہے ہیں ۔ امریکہ اور طالبان دونوں زندہ باد۔

تازہ ترین