• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں

حیرانی ہے کہ یہ تو دو پاکستان بنتے ہیں، ان میں رہتا کون ہے، پاکستانی کدھر ہے؟ جب کہ یہ ہمارا پیارا پاکستان ہے اور ہم سب پاکستان سے ہیں، جس کے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناحؒ ہیں اور اس ملک کا تصور علامہ محمد اقبالؒ نے دیا تھا، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی تاریخ کی پرائمری کلاس سے اپنی تعلیم شروع کریں۔ اب کلمے پر عمل کا وقت ہے ہم تاحال نظریے سے آگے نہیں بڑھے شاید کہ ہماری نظر ہی نہیں، ہماری تاریخ میں تو ایسے لوگ بھی تھے جن کا ذکر اقبالؒ نے یوں کیا تھا ؎

الٰہی سحر ہے پیرانِ خرقہ پوش میں کیا

کہ اِک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں

علامہ اقبالؒ نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ڈھونڈنے میں ہم نے یہ کیا کہ؎

شد پریشاں خوابِ من از کثرتِ تعبیر ہا

کہ ہمارا خواب کثرت تعبیر سے بکھر گیا اور گھٹا ٹوپ تاریکی میں ہم ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ کبھی ہمارا ہاتھ نواز شریف پر جا پڑتا ہے، کبھی شہباز شریف کا دامن پکڑ لیتا ہے، کبھی زرداری سے چھو جاتا ہے اور کبھی عمران کا ہاتھ تھام لیتا ہے؎

کیا، کیا خضر نے سکندر سے

اب کسے رہنما کرے کوئی

ہماری حالت شاید یہ ہوگئی ہے کہ لطیفہ سنے بغیر ہی ہنس پڑتے ہیں، یہ ہنسی بھی شاید محرومی کے آنسوئوں نے پالی ہے۔ گوری دلہن سے بیاہ رچایا تھا، گھونگھٹ اٹھاتے ہی آشکار ہوا کہ وہ تو کالی ہے، اس امید پر جیتےہیں کہ اس کی سیاہی میں کوئی چراغ جل اٹھےاور خوش ہوکر نغمہ سنج ہوں ؎

یونہی کوئی مل گیا تھا سرِراہ چلتے چلتے

٭٭٭٭

زلف کی رخسار کی باتیں کرو

یہ کیا ہر زبان پر مہنگائی کا ذکر ہے چھوڑو آئو کسی پر فضا پاکستان میں زلف کی رخسار کی باتیں کریں کہ ڈیپریشن کی گولی کھانے سے بہتر ہے زلف و رخسار کی بھول بھلیوں میں ایسے کھو جائیں کہ پھر سراغ بھی پایا نہ جائے، کبھی کسی نے غور کیا کہ شاعری بھی تقریباً بانجھ ہو چکی ہے۔ اب اس کی کوکھ سے کوئی غزل جنم لیتی ہے اورنہ بہار میں گل کھلتے ہیں ، کہ کہہ سکیں ؎

دل کا ملال لے گئی تازہ ہوا بہار کی

اب کیوں کوئی ابوالکلام کے انداز میں نہیں لکھتا، جوشؔ کی طرح حسین یادوں کی بارات نہیں لاتا، مصطفیٰ زیدی کو مشاعروں میں سنتے اور مشامِ جاں کو رومان پرور ہوائوں سے معطر کرلیتے تھے، اب نہ مصطفیٰ زیدی ہے نہ کوئی لالہ رُخ۔دونوں جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔ غم و الم، ظلم و ستم، گرانی ِ اشیاء اور گرانی طبیعت ،یہ سارا سازو سامان بھی رگ تاک سے نکلی مستی اور ساز دل سے اٹھنے والا نغمہ ہے، غالبؔ نے دل کے دھڑکنے کو کس خوبصورتی سے قلمبند کیا تھا؎

نغمہ ہائے دل ہی کو غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

تلخیٔ حیات کو بھی قند جانیے کہ ہر مشکل پہلو میں آسانی اٹھائے پھرتی ہے، ناامیدی اگرچہ کفر ہے مگر حسین تو وہ بھی ہے، اس لئے صبر و شکر سے برداشت کریں کہ امید کا بیج بھی ناامیدی سے پھوٹتا ہے،

ہم تو عدم تھے خلاقِ ہنر آشنا نے وجود کے مزے کرا دیئے، اس لئے ہمارے ذمہ شکر کے قرضے پاکستان کے قرضوں سے بھی بڑھ گئے ہیں، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بہت زوروں سے لائے گئے ہیں ضرور اپنی زنبیل میں سے من و سلویٰ اس کیفیت سے نکالیں گے کہ ؎

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

٭٭٭٭

ہائوسنگ ا سکیموں کی بھرمار

وطن عزیز میں تصاویر اور نقشوں کی حد تک جنت نظیر ہائوسنگ اسکیموں کے اشتہارات دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے اور بول اٹھتا ہے؎

کون کہتا ہے ہم غریب ہیں

ہم تو اب جنتوں کے بہت قریب ہیں

اچھا ہے اینٹ پر اینٹ رکھنے سے مزدوری تو مل جاتی ہے اور وہ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں کہ اپنا سرمایہ اپنی سرزمین پر ہی خرچ کرتے ہیں، قسطوں کی سہولت نے بے گھر افراد کیلئے اپنا آشیانہ پانے کا خواب تعبیر کی شرمندگی سے قریب تر کر دیا ہے، البتہ جو آبادیاں نقشہ جات اور سرکاری اجازت کے بغیر بن رہی ہیں وہ شیڈ پر بھی کمرہ بنانے کے ہنر سے آراستہ ہیں، گلیاں تنگ اور گاڑیوں کی فراوانی سے گلیاں بخیل کے دل سے زیادہ تنگ ہوتی جاتی ہیں، یہ طرز زندگی بھی اب تیزی پکڑ رہا ہے کہ نہ سلام نہ دعا، تو کون میں خواہ مخواہ۔ البتہ واقفیت کی بنیاد پر سلام کیا جاتا ہے، سنت سمجھ کر یوں گزرا جاتا ہے کہ جیسے گزرا ہی نہیں، حکومت کے تعمیراتی محکمے کو یہ چیک رکھنا چاہیے کہ یہ جو خود رو سوسائٹیاں تعمیر ہو رہی ہیں یہ رجسٹرڈ بھی ہیں یا شتر بے مہار، اکثر ایک پلاٹ کئی بار بکنے کی باتیں بھی سنائی دیتی ہیں، ٹائون پلاننگ والے اپنی پلاننگ سے فارغ ہوں تو تعمیرات و تجاوزات بھرے علاقوں کا بھی دورہ کرلیا کریں تاکہ کر بھلا اور اپنا بھلا کرنے کی ترتیب درست ہو، نئے شہر آباد کرنے چاہئیں، ضروری نہیں کہ لاہور کا ہر حصہ لاہور ہو۔ 

٭٭٭٭

مفلس کا دل ہے بجلی کا بل نہیں

...Oبجلی کے بل کو مفلس کا دل بنائیں ٹیکس نامہ نہ بنائیں، یہ نہ ہو کہ منچلے پکار اٹھیں، بجلی کا بل ہے کہ میرا دل ہے کہیں ٹوٹے ناں۔

...Oیہ جو ستاروں کا حال بتاتے ہیں کبھی ستاروں سے اپنا حال بھی پوچھ لیا کریں۔

...Oملک میں سیاسی رسہ کشی کا مقابلہ زوروں پر ہے، اس لئے کہ آئی ایم ایف کی فرمائش ہے سیاسی استحکام ہوگا تو کچھ ملے گا ورنہ نوٹس ملے گا۔

...Oہم نے ہر بدمزاج کو دوشیزہ کے روبرو خوش مزاج دیکھا، اس لئے ایسے افراد کو دوشیزہ کی تصویر ہی دکھا دیا کریں۔

تازہ ترین