• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مون سون کا موسم اب ختم ہو چکا ہے، بارشیں تو نہیں ہور ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کو جو بڑے پیمانے پر تکلیف پہنچی ہے وہ ابھی ختم نہیں ہوئی ، لوگ شاید بھول جائیں کہ سیلاب ہمارے ساتھ کیا کر گیا ، یہ تباہی نا قابل بیان ہے، جو ہوا سو ہوا لیکن آنے والے دنوں میں بھی سیلاب زدگان کا امتحان جاری رہنے کا خدشہ ہے کیوں کہ سیلاب کے بعد کا طوفان مزید تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہورہا ہے، ان علاقوں میں جو تباہی اور طوفان آیا ہے کچھ معاملات میں، شاید، یہ ہمیشہ وہاں رہے گا۔ موسلا دھار بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے ملک کی معیشت پر ناقابل تلافی اثرات چھوڑے ہیں، لوگوں کی اموات، مویشیوں کی ہلاکت ، کھیتوں کے ڈوبنے، گھروں کی تباہ حالی اور پھیلنے والےوبائی امراض سے ہونے والے نقصانات کے تخمینے کو پوری طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا ۔سیلاب کے بعد کے چیلنجز بہت بڑے ہیںاور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اگر پاکستان کا ساتھ نہ دیا گیا تو ممکن ہے کہ آنے والے برسوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں انسانی تاریخ کا بدترین بحران جنم لیتا نظر آئے ۔ نقصانات کی تخمینی لاگت کے مقابلے میں بین الاقوامی امداد انتہائی قلیل ہے جو دو فیصد بھی نہیں۔ یو این سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے سیلاب زدہ علاقوں کے ہلچل مچانے والے دورے اور عالمی برادری سے پاکستان کا بوجھ بانٹنے کی پرجوش اپیل کے علاوہ ریکارڈ میں اور کچھ لایانہیں جا سکتا اور ہوم فرنٹ پر ’سائفر‘ سیاست تیزی سے متاثرہ 33 ملین پاکستانیوں کی حالت زار کو اخبارات کے اندر کے صفحات تک پہنچا رہی ہے ،عمران خان کو کوئی فکر نہیں کہ ان کی سیاست ملک کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہی ہے، وہ دن رات اسی کوشش میں ہیں کہ کسی طرح سیلاب متاثرین سے عالمی توجہ ہٹائی جائے۔ سیلاب سے متاثرہ ان بدقسمت لوگوں کو یہی لگتا ہے کہ وہ آنے والے کئی سال تک انہی حالات میں رہیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوناچاہیے۔ اس انسانی المیے کو نظر انداز کر کے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے متاثرین کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کرنے سے پاکستان کے عوام اور حکومت انسانیت کے خلاف جرم کے مرتکب ہوں گے اور اس جرم میں اگر کسی کا مرکزی کردار ہے تو وہ حکومت سے زیادہ عمران خان کاہے۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے علاقوں میں معمولات کو بحال کرنے کے لیے کچھ قابل عمل ذرائع ہیں۔ ان میں ربیع کی فصلوں بالخصوص گندم کی بوائی کو یقینی بنانے کے لیے سندھ کے کھیتوں اور دیہات سے پانی نکالنا اور مسمار شدہ گھروں کی تعمیر شامل ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ متاثرہ علاقوں کی زمینی سطح ،سطح سمندر سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس پانی کو آبی گزرگاہوں سے منسلک چینلز میں پمپ کیا جا سکتا ہے جو پانی کو سمندر تک لے جاتے ہیں۔بصورت دیگر، گندم کی فصل نہ ہونے سے صوبہ سندھ میں بڑے پیمانے پر غذائی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور اگلے سال کے اوائل میں بدترین صورتحال ہوگی۔ دوسرا چیلنج یہ یقینی بنانا ہے کہ متاثرہ افراد اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔ کچھ عرصہ پہلے لوگوں کو پہلے سے تیار شدہ گھر فراہم کرنے کی بات ہوئی تھی۔ لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟

بڑے پیمانے پر لوگ اپنے ٹھکانوں کو اسی طرح دوبارہ تعمیر کرنا پسند کرتے ہیں جس طرح طوفانی بارشوں اور سیلاب کے حملے سے پہلے تھے۔ حکومت کو ان لوگوں کو گھر بنانے کے لیے بلا سود قرضے فراہم کرنے چاہئیں۔ تاہم فوری طور پر ان لوگوں کی صحت کا مسئلہ اہم ہے وہ کھلے آسمان تلے سوتے ہیں، آلودہ پانی پیتے ہیں اور مچھروں کا آسان شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موبائل کلینکس کے قیام کے لیے کوششیں کی گئی ہیں لیکن رپورٹس کے مطابق وہاں بیماروں کی مدد کے لیے آنے والے رضاکاروں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ کھیتوں کھلیانوں سے پانی نکالنے، مکانات کی تعمیر نو میں مدد کرنے اور طبی دیکھ بھال اور ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، لیکن سڑکوں کے رابطوں، ہسپتالوں، اسکولوں اور توانائی کی فراہمی جیسے قابل عمل انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور گندم کی بوائی کو یقینی بنانا سب سے اہم ہے ورنہ اگلا سال سندھ کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوگا۔

تازہ ترین