• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں بدترین معاشی بحران، حکومت لڑکھڑانے لگی، 6 ہفتوں میں ہی وزیراعظم مشکل میں

کراچی (نیوز ڈیسک) رواں موسم گرما کے دوران جس وقت لز ٹرس برطانیہ کی وزیراعظم بننے کیلئے جدوجہد کر رہی تھیں، اس وقت ان کے ایک اتحادی نے پیشگوئی کی تھی کہ اقتدار میں ان کے ابتدائی چند ہفتے ہنگامہ خیز ثابت ہونگے۔ لیکن شاید چند ہی لوگوں کو شاید غم و غصے کی سطح کا درست اندازہ ہوا ہوگا، لز ٹرس کو خود بھی اس صورتحال سے لاعلم ہونگی۔ اقتدار سنبھالے 6؍ ہفتے ہی نہیں گزرے کہ وزیراعظم لز ٹرس کی آزادانہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مالی بحران نے جنم لے لیا ہے جس سے مرکزی بینک نے ہنگامی بنیادوں پر مداخلت کی ہے اور حکومت کے کئی یو ٹرنز کا نتیجہ بالآخر وزیر خزانہ کے استعفے کی صورت میں سامنے آیا۔ اب لز ٹرس کو حکمران کنزرویٹیو پارٹی سے اندرونی بغاوت کا سامنا ہے اور اب ان کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔ وزیراعظم کی اپنی ہی پارٹی کے رہنما رابرٹ ہالفون نے صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ایک کے بعد ایک نیا خوف ناک منظر سامنے آ رہا ہے، حکومت آزاد خیال جہادی کی طرح کام کر رہی ہے اور پورے ملک کو چوہوں پر تجربات کرنے والی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا گیا ہے تاکہ الٹرا، الٹرا فری مارکیٹ تجربات کیے جا سکیں۔ ایسا نہیں کہ پارٹی کو خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ کنزرویٹیو پارٹی کے سربراہ کے انتخاب کی جدوجہد کے دوران لز ٹرس نے خود کو ایک ایسا اتھل پتھل مچانے والا انسان قرار دیا تھا جو سخت گیر معاشی پالیسیوں کو چیلنج کرے گا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹیکسوں میں کمی کریں گی، سرخ فیتے کی روایتی سیاست ختم کریں گی اور برطانیہ کی سست رفتار معیشت میں تیزی لائیں گی۔ ان کے مد مقابل سابق وزیر خزانہ ریشی سوناک نے دلیل دی تھی کہ فوری طور پر ٹیکسوں کو کم کرنا لاپروائی اور خطرناک ثابت ہو گا کیونکہ ملک پہلے ہی کورونا وائرس کے بعد کی صورتحال اور یوکرین جنگ کی وجہ سے کئی جھٹکوں کا سامنا کر رہا ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے ایک لاکھ 72؍ ہزار افراد، جن کی اکثریت بوڑھے اور مالدار لوگوں پر مشتمل ہے، نے لز ٹرس کے موقف کو درست قرر دیا اور پارٹی کا سربراہ بننے کیلئے انہیں 57؍ فیصد ووٹ ملے، اگلے ہی دن آنجہانی ملکہ برطانیہ نے وزیراعظم بنا دیا۔ لز ٹرس کے ابتدائی دن ملکہ برطانیہ کے انتقال کے سوگ میں گزر گئے۔ اس وقت بعد 23؍ ستمبر کو وزیر خزانہ کواسی کوارٹینگ نے معاشی پلان کا اعلان کیا جس میں 45؍ ارب پاؤنڈز کی ٹیکس چھوٹ (جس میں بھاری آمدنی والے افراد کیلئے انکم ٹیکس بھی شامل ہے) دی گئی تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت اتنی بھاری ادائیگیاں کیسے کرے گی۔ ان اعلان کے بعد ڈالر کے مقابلے میں پاؤنڈ کی قدر کم ہوگئی، بینک آف انگلینڈ حکومتی بانڈز خریدنے پر مجبور ہو گیا اور اس طرح ملکی معیشت کو بدترین نقصان سے بچا لیا گیا۔ اس صورتحال کے بعد بینک آف انگلینڈ کا کہنا تھا کہ شرح سود کو تیزی سے بڑھانا ہوگا تاکہ مہنگائی کو روکا جا سکے۔ اس اعلان کے بعد مارگیج پر گھر خریدنے والے افراد کی ’’کانپیں ٹانگ‘‘ گئیں کیونکہ انہیں آئندہ مہینوں میں مہنگی اقساط ادا کرنا پڑیں گی۔ کواسی کوارٹینگ کو ہٹانے کے بعد وزیراعظم لز ٹرس نے اپنے پرانے دوست اور اتحادی جیریمی ہنٹ کو وزیر خزانہ لگا دیا ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ وہ برائے نام ہی وزیراعظم رہ گئی ہیں کیونکہ اب حکومت میں طاقت جیریمی ہنٹ کو منتقل ہو چکی ہے کیونکہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ 31؍ اکتوبر کو مڈ ٹرم بجٹ کا اعلان کرنے والے ہیں جس میں لز ٹرس کے معاشی پلان کی دھجیاں اڑائی جائیں گی کیونکہ جیریمی ہنٹ ٹیکسوں میں اضافے اور عوامی ترقیاتی منصوبہ جات میں کٹوتیوں کا اعلان کر چکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے جیریمی ہنٹ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم لز ٹرس نے ان کی بات مان لی ہے، وہ اب تبدیل ہو چکی ہیں، وہ سیاست میں مشکل فیصلہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہمیں سمت تبدیل کرنا ہوگی۔ کنزرویٹیو (ٹوری) پارٹی پارلیمنٹ میں اکثریت میں ہے اور آئندہ عام انتخابات میں دو سال رہ گئے ہیں۔ سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات کی صورت میں کنزرویٹیو (ٹوری) پارٹی کا صفایا ہو جائے گا اور لیبر پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔
اہم خبریں سے مزید