• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی دارالاسلام پٹھان کوٹ سے 30؍اگست 1947ء کو لاہور پہنچے اور 32 برس کے لگ بھگ 5 ذیلدار پارک اچھرہ میں قیام پذیر رہے۔ پاکستان آنے سے پہلے وہ ایک بےبدل مفکر، مفسرِ قرآن اور اَدیب کی حیثیت سے پورے ہندوستان میں اپنا سکہ جما چکے تھے۔ اُنہوں نے اسلامی انقلاب بپا کرنے کے لیے جماعتِ اسلامی بھی قائم کر لی تھی۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کا اچھا خاصا حصّہ دہلی میں گزارا تھا اور اُن کے اندر دِلی تہذیب کی خوبیاں رچ بس گئی تھیں۔ دھیمے لہجے میں گفتگو اور ہر معاملے میں تہذیب اور وَضع داری کی پاسداری، اُن کے مزاج کا ایک حصّہ بن گئی تھی۔ وہ نظم و ضبط کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے ہر کام سے ایک شائستگی اور بلا کی نفاست ٹپکتی تھی۔ وہ لاہور آئے، تو اُنہوں نے اپنی جماعت کو مہاجرین کی خدمت پہ مامور کر دیا جو لاکھوں کی تعداد میں آگ اور خون کے دریا عبور کر کے پاکستان آ رہے تھے۔ اُن کی حالت اِس قدر ناگفتہ بہ تھی کہ جب قائدِاعظم مہاجرین کے والٹن کیمپ گئے، تو اُن کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہہ نکلے تھے۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی اہمیت اختیار کرتا گیا کہ پاکستان جس اعلیٰ نصب العین کے حصول کی خاطر وجود میں آیا ہے، اُس کی طرف کس طرح پیش قدمی کی جائے۔ انگریز تو ایک استحصالی نظام کی باقیات اور طورطریق چھوڑ گیا تھا جب کہ اسلامی نظامِ حیات کے تقاضے یکسر جدا تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے بلاشبہ ایک عوامی تحریک کے طور پر زبردست کارنامہ سرانجام دیا تھا اور قائدِاعظم کی قیادت میں اسلامیانِ ہند کے لیے ایک آزاد خطۂ ارض حاصل کر لیا تھا، مگر ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اُس کے اندر خاصی کمزوریاں تھیں جن پر قابو پانے کے لیے قائدِاعظم کو وقت نہیں ملا۔ اُن کی پہلی ترجیح پاکستان کا حصول تھا جو اَنگریزوں اور ہندوؤں کی ملی بھگت سے ایک انتہائی مشکل بلکہ ایک ناممکن الحصول ہدف تھا۔ پاکستان کی صورت میں برِصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد وَطن کی عظیم نعمت میسر آ گئی تھی جس کے طفیل اسلامی زندگی اور اِسلامی نظام کا سفر شروع کیا جا سکتا تھا۔ مولانا نے پاکستان پہنچتے ہی اُس کی طرف تیزی سے پیش قدمی شروع کی اور اُس کٹھن راہ میں اُنہیں سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑا اَور برسوں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ اُن کی استقامت اور بصیرت کا روشن باب ہماری سیاسی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ہے۔

آج ہم اُن کے اسلوبِ قیادت کے حوالے سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں ایک مدت سے قیادت کے فقدان کا سامنا ہے۔ قائدِاعظم بےمثل قیادت کی بدولت ہی بیسویں صدی کا معجزہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ بدقسمتی سے اُن کے جاں نشین ایک اچھا معیار قائم نہ رکھ سکے اور پاکستان آگے چل کر مسائلستان بن گیا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی جنہوں نے ایک جماعت کی داغ بیل ڈالی تھی، اُس کا نظام سیاست کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق چلایا اور بیش بہا قابلِ تقلید مثالیں قائم کیں۔ ہماری بیشتر سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ لیڈروں اور کارکنوں کے مابین براہِ راست رابطہ بہت کم اور مشاورت اور اِحتساب کا عمل شاذونادر ہی نظر آتا ہے۔ مولانا مودودی نے صالح قیادت کی پرورش میں زندگی گزاری تھی۔ اُنہوں نے اپنا ٹائم ٹیبل اِس طرح ترتیب دیا کہ وہ روزانہ عصر اور مغرب کی نمازوں کے درمیان مجلسِ عام کا اہتمام کرتے جس میں ہر شخص آ سکتا تھا۔ وہ سفر کے دوران بھی اُس عصری مجلس کا اہتمام کرتے اور اُسے غیرمعمولی اہمیت دیتے رہے۔ اُس مجلس کے ذریعے جماعت کے بانی اور عام کارکن کے درمیان رابطہ بھی قائم رہتا، احتساب کا عمل بھی بروئےکار آتا اور مشاورت کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ پھر مولانا نے اِس امر کا بھی اہتمام کیا کہ جماعت کے سالانہ اجتماعات باقاعدگی سے منعقد ہوں اور اُن میں کارکن آزادی سے رائے دیں اور پالیسیوں کا تنقیدی جائزہ لیں۔ 1957ء میں جب جماعت کے اندر سیاست میں حصّہ لینے پر اختلاف پیدا ہوا، تو مولانا اُس مسئلے کو ماچھی گوٹھ کے سالانہ اجتماع میں لے گئے۔ ڈاکٹر اسرار اَحمد نے مولانا کی موجودگی میں اُن کی پالیسی کے خلاف چھ گھنٹے تقریر کی اور مولانا بڑے تحمل سے سنتے رہے اور اِختتامی اجلاس میں کم الفاظ میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ اِس نوع کی آزادیِ اظہار سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ آزادی سے بات کہنے اور تحمل سے بات سننے سے رواداری، اعلیٰ حوصلگی اور باہمی اعتماد کا کلچر فروغ پاتا ہے جو تنظیم کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعداد میں مختصر ہونے کے باوجود جماعتِ اسلامی قومی امور میں اہم کردار اَدا کرتی آئی ہے۔

سالانہ اجتماعات سے جذبوں کو جِلا ملتی رہی اور یک جہتی میں استحکام پیدا ہوتا رہا۔ وہاں جو فیصلے ہوتے، اُن پر مجلسِ شوریٰ کی راہنمائی میں عمل درآمد ہوتا۔ مجلسِ شوریٰ کے لیے پورے ملک سے صاحبانِ بصیرت کا انتخاب کیا جاتا، وہ بحث و تمحیص کے دوران امیر جماعتِ اسلامی سے اختلاف بھی کرتے اور متبادل تجاویز بھی دیتے تھے۔ مجلسِ شوریٰ کے اجلاس سال میں تین چار بار منعقد ہوتے جن میں ملکی معاملات کا گہرائی سے جائزہ لے کر مسائل کا حل پیش کیا جاتا۔ اِس طرح عوام کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا، کیونکہ اُن کے مسائل کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا جاتا۔ مولانا نے قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے ساتھ کمال وضع داری اور فیاضی کا سلوک روا رَکھا اور سیاسی مصالحت کی خاطر غیرمعمولی تدبر اور تحمل کا ثبوت دیا جس کی نظیر ہماری سیاسی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ وہ دَستور کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوری اداروں کی مضبوطی پر یقین رکھتے تھے اور طاقت کے استعمال کے شدید مخالف تھے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز صرف ریاست ہے اور اِسلام سرکش جتھوں کو قتال کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ ہم آگے چل کر واضح کریں گے کہ اُنہوں نے زندگی میں جو اُصول اپنائے اور وُہ اُن پر جس کمال استقامت سے کاربند رہے، اُن سے ہمارے معاشرے پر کس قدر گہرے اثرات مرتب ہوئے ، جو آئندہ بھی سلامتی کا راستہ دکھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین