• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کسی زمانے میں شعیب بن عزیز کےگھر رہا کرتا تھا اور ان کاگھر وہیں تھا جہاں شاہکام فلائی اوور بنا ہے۔ وہاں آئے دن یہ ہوتاکہ جیسے ہی میں گھر کے پاس پہنچتا، شاہکام چوک پرٹریفک پھنسی ہوتی۔ اکثر وہیں گاڑی کھڑی کر کے پیدل شعیب صاحب کے گھر چلا جاتا تھا اور پھر ان کا ڈرائیور ایک دوگھٹنے ٹریفک میں گزارکر گاڑی گھر تک لانے میں کامیاب ہو جاتا۔ اہل اقتدار کو اس سلسلے میں ڈیمنشیا ہو چکا تھا یعنی یادداشت میں شاہکام چوک کا مسئلہ آتا ہی نہیں تھا۔ اور لوگوں کی طرح میں نے بھی آواز بلند کی کہ اس چوک کا کوئی حل نکالا جائے،یہاں کوئی فلائی اوور بنایا جائے۔ شعیب صاحب تو اس چوک سے اتنا تنگ آئے کہ ایک دن انہوں نے اپنا وہ ذاتی مکان جسے انہوں نے بڑی محبت سے بنایا تھا، کرا ئے پر دے دیا اور شہر میں آکرکرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ اسی دوران ایک دن سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نےوہاں ایک فلائی اوور کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کردیا۔ وہاں رہنے والوں کی سنی گئی۔ مجھے یاد ہے ،میں بھی سنگ ِبنیاد رکھتے وقت وہاں موجود تھا۔ سردار عثمان بزدار نےتقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلائی اوور چند ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ ان کے جانےکے بعد فلائی اوورکا کام بہت سست ہو گیا مگر جیسے ہی پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے حکم دیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے تمام ادھورے منصوبے فوری طور پر مکمل کئے جائیں۔ ابھی چند دن پہلے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے اُس فلائی اوور کا افتتاح کیا اور وہاں رہنے والوں کی زندگی میں ایک نیا موڑآ گیا۔ حتیٰ کہ زمینوں اور مکانوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ میں اس فلائی اوورکے مکمل ہونے پر پرویز الٰہی کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔

وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے اپنے پچھلے دور میں بے شمار یادگار کام کئے اور اب بھی کررہے ہیں مگر کچھ ایسے کام بھی اس مرتبہ انہوں نے شروع کئے ہیں جو بہت پہلے ہوجانے چاہئے تھے۔ خاص طور پر ڈیمنشیا کے خلاف ایکشن انتہائی ضروری تھا۔ ترقی یافتہ ممالک نے تو اس بیماری کے پھیلتے ہوئے دائرے کو کم کرنے کےلئے آج سے پندرہ بیس سال پہلے کام شروع کردیا تھا۔ پاکستان نے بھی دو ہزار سترہ میں عالمی ادارۂ صحت کے پبلک ہیلتھ ٹو ڈیمنشیا کے عالمی ایکشن پلان پر دستخط کئے تھے مگر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔

میں جن دنوں برطانیہ میں قیام پذیر تھا وہاں اس بیماری کے خلاف برطانوی محکمۂ صحت نےاپنی تحریک شروع کررکھی تھی۔ دوہزار آٹھ میں، میں نے بھی برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس کےلئے ڈیمنشیا کے بارے میں ایک ڈرامہ، ایک کتابچہ اور ایک ڈاکیو منٹری بنائی تھی۔ برطانیہ نے اس بیماری سے نبرد آزما ہونے کےلئے برٹش قوم کو تیار کیا تھا۔ اس وقت پاکستان میں یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں چار لاکھ ڈیمنشیا کے مریض موجود ہیں جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کا اس بیماری کے خلاف ایکشن پلان بہت ہی احسن اقدام ہے۔ انہوں نے اس کے متعلق کہا کہ ’’اکیسویں صدی کے سب سے اہم صحت اور سماجی بحرانوں میں سے ایک بحران ڈیمنشیا ہے۔ پنجاب میں بزرگوں اور ڈیمنشیا کے مریضوں کے ساتھ رہنے والے لوگوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو طبی اور سماجی خدمات فراہم کرنا ایک بڑا سنگ میل ہے۔ ڈیمنشیا کے متعلق عالمی اعداد و شمار فکر انگیز ہی نہیں تشویشناک بھی ہیں۔ دوسرے صوبوں کو پنجاب ڈیمنشیا پلان کی تقلید کرنی چاہئے‘‘۔

ڈیمنشیا ایک ذہنی بیماری ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ قریبی یادداشت کم ہونے لگتی ہے، صرف ماضی کی باتیںیاد رہ جاتی ہیں۔ فوری یادداشت کےدماغی خلیے اس بیماری میں مرنے لگتے ہیں ان کے مردہ ہونے کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے مگر مردہ ہونے والے خلیوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا کوئی طریقہ ابھی تک سائنس ایجاد نہیں کر سکی۔ اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مریضوں کو دماغ اپنے قریبی لوگوں کے متعلق بھی غلط تفہیم دینے لگتا ہے۔ یعنی وہ اپنے بیٹے کو دیکھتا ہے مگر اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے دس بیس سال پہلے فوت ہوجانے والے بھائی کو دیکھ رہا ہے سو مریض بیٹے کے ساتھ وہی باتیں کرنے لگتا ہے جو بھائی کے ساتھ کرنی ہوتی ہیں اور لاکھ سمجھانے پر بھی اس بات پر تیار نہیں ہوتا کہ یہ میرا بھائی نہیں بیٹا ہے۔ اس کے دماغ میں سے وہ یادداشت محو ہو چکی ہوتی ہے جس میں اس کا بھائی فوت ہو گیا تھا۔ اس طرح سماجی المیے جنم لینے لگتے ہیں۔ یوکے میں میرے ایک رشتہ دار بزرگ کو یہی بیماری لاحق تھی۔ ایک دن وہ ہمسائے کےگھر چلے گئے اور اس بات پر بضد ہوگئے کہ یہ میرا گھر ہے اس گھر میں موجود عورت میری بیوی ہے۔ حالانکہ ان کی بیوی کئی سال پہلے فوت ہو گئی تھی۔ بڑی مشکل سےانہیں واپس لایا گیا۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ جب اس بیماری کا آغاز ہوتا ہے، تو اسے روکا جا سکتا ہے مگر اس کے متعلق کوئی تشخیص نہیں ہو پاتی۔ گھر والے توجہ نہیں دیتے مگر جب بیماری بڑھ جاتی ہے تو اس وقت ڈاکٹر کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ پھر یہ مریض اپنی دیکھ بھال کرنے والے عزیزوں کےلئے مسلسل ذہنی اذیت کا سبب بننے لگتا ہے جس سے سماجی بحران میں اضافہ ہوتا ہے اور مریض کی دیکھ بھال کرنے والوں کو بھی طبی امداد کی ضرورت پڑنے لگتی ہے۔ خاص طور پر رات ان مریضوں پر بہت بھاری ہوتی ہے۔ برطانیہ میں تو ان مریضوں کیلئےرات بہتر انداز میں گزارنے کےلئے کیئر سنٹر بھی بنائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر یاسمین راشد کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین