• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات حاضرہ سے آگاہی انسانی فطرت کے مطابق پورے معاشرے کی بڑی اہم ضرورت ہے۔ اس کی حقیقت دراصل یہ ہے کہ حالات حاضرہ سے آگاہی کا تجسس انسان کی فطری ضرورتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ اس کے مطلوب کے مطابق پورا ہونے سے ہی صحت مند معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔عوام الناس کی سطح پر اس ضرورت کا پورا ہونا کمیونیکیشن ٹیکنالوجی اورپیشہ صحافت کی تیز تر عملداری سے ہی ممکن ہے سو انسانی ترقی مسلسل تجسس اور آگاہی کے امتزاج کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یوں تجسس اور بذریعہ صحافت معاشرے کی آگاہی ہی تہذیبِ انسانی کے تیز ارتقا کے لازمے ہیں ۔اس سے جڑی بڑی حقیقت یہ ہے کہ صحافت کاقوم کو حالاتِ حاضرہ کی مجموعی صورت سے مسلسل آگاہ رکھنا بڑا پیشہ ورانہ چیلنج ہے جو وبااور خطرات سے پر ہے کہ اس سے مطلوب معاشرتی رویہ سازی کاعمل جاری رہتا ہے۔چنانچہ اطلاعات کی آزادانہ فراہمی اور رائے عامہ کی تشکیل کیلئے حالات وواقعات کے تجزیے صحافت کا مرکز و محور ہیں۔اس لحاظ سے پرنٹنگ مشین کی ایجاد اور اس کے جارحانہ فالو اَپ میں ظہور صحافت سے انسانی تہذیبی ارتقا کا ایجادات کے حوالے سے انقلاب آفریں مرحلہ شروع ہوا ،اس کی بدولت جاری اور گزشتہ تین چار صدیوں کی ترقی پوری انسانی تاریخ کی عظیم مین میڈکامیابیوں پر غالب و حاوی ہے جو کمیونیکیشن سپورٹ (بشکل صحافت) سے جڑی ہے۔

پاکستان ترقی پذیر دنیا میں تو کیا کل دنیا میں بھی آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے، اس کے مقابل ہمارے بیمار نظام سیاست و حکومت کے باعث ہم لا تعداد انسانی مسائل سے دوچار بڑا انسانی معاشرہ ہیں،تاہم صورتحال کو قابو میں رکھنے اور مستقبل کی بہتر امید کے تناظر میں ہم پر قدرت کا یہ بڑا کرم ہے کہ اپنی اقتصادی ،علمی اور سیاسی پسماندگی کے باوجود ہمارے ہاں اطلاعات و تجزیوں کے ماحول کا تلاطم، بڑی خامیوں ،پیچیدگیوں اور رکاوٹوں کے باوجود امیدافزا اور قوم کے مورال کو اس درجے پر رکھتا ہے کہ بڑے بڑے حوادث اور خساروں کے باوجود قائم رہنے اور گرتے پڑتے آگے بڑھنے کی کوئی نہ کوئی راہ نظر آتی رہتی ہے۔

پاکستانی حالات حاضرہ کے تیز تر مدوجزرسے تین چار بڑی امید افزا خبروں اور ان کے حوصلہ افزا فالو اَپ کا سلسلہ چل نکلا ہے، اگرچہ جمہوری اقدار کی پامالی کے واقعات کا بھی تسلسل بصورت اسٹیٹس کو سیاست کے پوری طاقت سے مزاحم بنتے رنگ میں بھنگ ڈال کر ملکی سیاست و معیشت کیلئے مسلسل خطرے کا باعث بن رہی ہے لیکن مقابل سیاسی و انتخابی عمل اور انہیں حاصل قانونی جدوجہد نے بگڑتے معاملات کو کافی سنبھالا ہوا ہے۔ قارئین کرام !آئیں ایک ہی ہفتے میں ہونے والی ان خبروں اور ان کے تجزیوں پر مبنی فالو اَپ کا جائزہ لیں جن سے قومی حوصلے و امید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پارلیمان میں انسداد احتساب طرز کے نیب ایکٹ میں ہونے والی ٹیلر میڈ قانون سازی کے خلاف پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے جو انتہائی متعلقہ سوالات کی بوچھاڑ کی ہے، اس نے یہ حوصلہ دیا ہے کہ ملک میں پارلیمانی عمل کے ذریعے بھی دو قانونی نظام اور انسداد کرپشن کے خلاف تفتیشی اور عدالتی عمل کو روکنے کی دیدہ دلیری اتنی بھی بلانوٹس نہیں ۔ملک کی سپریم کورٹ کا اس کی آئینی روح، قانون کے یکساں اطلاق کے تقاضوں اور قومی سیاسی سوچ و ضرورت کا عکاس نوٹس قابل اعتبار فلٹر ہے ۔واضح رہے کہ حکومت کے تبدیل ہوتے ہی جس طرح عوامی سطح پر قابلِ فہم جاندار درج اور زیر تفتیش مقدمات کو یکسر ختم کرنے کی مطلوب آئینی عمل سے متصادم کارروائی یا واردات ہوئی اس نے قوم کو مایوسی کی اتھاہ گہرائی میں دھکا دیا ،دنیا بھی اس پر حیران اور بیرون ملک پاکستانی سیخ پا ہیں ،جس کا اظہار مسلسل سوشل میڈیا سے ہو رہا ہے۔

قطع نظر روایتی پارٹی سیاست کے ،ملک گیر پارلیمانی سیاسی قوت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام، قومی اتحاد اور مستحکم معیشت کی اولین ضرورت ہے اگرچہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو برسوں سیاسی مقام حاصل رہا افسوس کہ وہ یہ کھو بیٹھیں، بار بار کے اقتدار سے وہ اس کو مزید مستحکم کرتیں لیکن پچھلی حکومتی غلطیوں نے کفاروں کی ادائیگی کی بجائے ہر بار پہلے سے بڑھ کر قومی خزانے اور عوامی خدمات کے اداروں میں بیڈ گورننس سے جو کھلواڑ مچایا اس نے پی ٹی آئی کو بالآخر ملک کی سب سے بڑی اور مکمل وفاقی پارلیمانی قوت بنا دیا ،جو خیبر سے لیاری تک پہنچ گئی ہے ۔پنجاب کے 20نشستی ضمنی انتخابات کے بعد اب گزشتہ دنوں گیارہ قومی و صوبائی اسمبلی کی خالی نشستوں پر پی ٹی آئی کی تین چوتھائی کامیابی نے اس یقین پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی کہ اب وہی سب سے بڑی ملکی وفاقی سیاسی قوت ہے ۔یہ پی ڈی ایم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ وہ سوچے کہ علاقائی و صوبائی جماعتی سیاسی اتحاد کی بجائے خود کو انتخابی اتحاد کے طور پر ہی قائم رکھے گی؟سندھ، سنٹرل پنجاب اور خاندانی موروثی سیاسی قیادتوں کو مکمل بیک فٹ پر نہیں بھی لے جاتی تو اپنی اپنی جماعتوں کے مستعد، دیانت دار اور بہتر شہرت کے سیاسی کارکنوں کو تو آگے لاکر کوئی توازن قائم کرے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ کوئی انقلابی فیصلہ کرکے پی ٹی آئی کے مقابل ایک مکمل وفاقی پارلیمانی سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے کی قومی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

امریکی صدر بائیڈن کے پاکستانی ایٹمی پروگرام کو پر خطر اور غیر منظم قرار دینے کا جو ٹھوس پاکستانی موقف وردعمل بلاامتیاز حکومت و اپوزیشن اور مختلف النواع سیاسی سماجی تقسیم کے طور پرسامنے آیا ہے وہ پورے پاکستان کی عظیم سفارتی کامیابی ہے، یہ بڑی بات ہے کہ صدارتی بیان سے متضاد امریکی وزارت دفاع کی طرف سے پاکستانی ایٹمی پروگرام مکمل کنٹرولڈ اور ذمے دارانہ ہونے کا عندیہ دے کر فوری پاکستان کو مطمئن کرنے کی سفارتی کوشش، اب اسے بے اثر نہ کیا جائے۔

’’مسیحا‘‘ وزیر خزانہ نے اپنے اس بیان کہ ’’مہنگائی چھ ماہ میں آتی ہے نہ جاتی ہے‘‘ کی حقیقت کو سمجھنا ہے تو آٹے دال کے بھائو کادکانوں پر جا کرجائزہ لیں کہ حکومت کی تبدیلی کے بعدعوام پر کیا گزری، لندن سے آہی گئے ہیں تو چولہے ٹھپ گھروں کے بے حال و بے جان مکینوں سے ملیں، وہ آپ کو بتائیں گے کہ حکومت کے آتے ہی چھ نہیں دو ماہ میں مہنگائی کا ایسا سونامی آیا ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔ آپ کی لندن میں بیٹھ کر اکھاڑی گئی عمران حکومت تو جاتے جاتے تیل، بجلی سستا کر گئی، آپ اب تیل کیلئے رجوع کر رہے ہیں اور چھ ماہ بعد!آپ کے اتحاد اور ہارس ٹریڈنگ کا نشانہ بنی حکومت تب یہ کارخیر کر رہی تھی، اس کا اب تک جو خسارہ ہو گیا ہے اس کی ذمہ دار پی ڈی ایم ہے یا پی ٹی آئی؟

تازہ ترین