عمران خان کی حالیہ بھرپور انتخابی کامیابی نہ صرف لیڈر ان کی بڑھتی ہوئی عوامی حمایت کا اظہارتھابلکہ یہ ملک میں جلد عام انتخابات کے انعقاد کا ریفرنڈم بھی تھا۔مگر صدمے سے نڈھال برسر اقتدار حکومت کا فوری ردعمل اپنا وہی جانا پہچانا عزم کہ اس کی مدت کے تمام ہونے پر ہی عام انتخابات ہوں گے ۔ حکومت کی بڑھتی ہوئی فسطائیت صورت حال کی سنگینی بڑھا رہی ہے ، جس انداز میں سینٹر اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا، بدسلوکی کی گئی ، بدترین حراستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی حمایت کو ڈرانے کرنے کیلئے کس قسم کے وحشیانہ ہتھکنڈے اپنائے جاسکتے ہیں۔
صدر بائیڈن کے بیان کے بعد داخلی قطبیت مزید بڑھ گئی ۔ امریکی صدر نے پاکستان کو چین اور روس کی صف میں رکھتے ہوئے اسے ’’دنیا کے خطرناک ترین مقامات میں سے ایک‘‘، اور اس کے جوہری ہتھیاروں کو ’’غیر منظم‘‘ قراردیا۔ حکمران ٹولے کیلئے یہ بیان اس سے زیادہ برے وقت میں نہیں آسکتا تھا ۔ وہ تودعویٰ کررہے تھے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جاچکے ہیں ، اور یہ کہ بہت جلد ملک معاشی مسائل کی دلدل سے نکل آئے گا۔ لیکن حقیقت کا سامنا کرتے ہی اندھا دھند احمقانہ بیانات دینا شروع کردیے ۔ جب احتجاج کی لے بڑھی توسفیرکو بلا کر ڈیمارش کردیا لیکن وزیرخارجہ معذرت خواہانہ انداز کے ساتھ بیان سے ہونے والے نقصان کوکم کرنے کی کوشش میں تھے ۔حتیٰ کہ اسے نرم بیان قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کرنے کی بھی کوشش کی ۔
اس نے پورے سازشی گٹھ جوڑ کو ایک بار ہلا کر رکھ دیا جس نے خان کی آئینی حکومت کو غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ہٹایاتھا۔ اس کیلئے پرکشش مراعات کے عوض قانون سازوں کو خریدابھی گیا تھا۔ اس منصوبے کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ پاکستان کو ایک تابع فرمان قیادت کے ہاتھوں میں دے کر کمزور کردیا جائے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مجبور کرکے ملک کو اس کے اہم اثاثوں سے محروم کردیا جائے۔ صدر بائیڈن کا بیان بدترین خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔ چند الفاظ میں، یہ پاکستان کے ساتھ آئندہ پیش آنے والے حالات کا پورا گیم پلان ہے۔ اسے چین اور روس کے ساتھ جوڑا گیاجنھیں امریکہ قابل نفرت حریف سمجھتا ہے۔ پاکستان کی اس حیثیت کا از سرنوتعین کرنے کا مطلب اس کے خلاف محاذکھولنا ہے۔ یہ ایک جاری پالیسی کا حصہ ہے جہاں پاکستان پر چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے دائرہ کار کو محدود کرنے کیلئےغیر ضروری دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو اکثر مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل شروع نہ کرے۔
داخلی قطبیت اور غیر ملکی مداخلت کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھنے والی مضبوط اور قابل بھروساحکومت کے قیام کی اہمیت مزید بڑھ چکی۔ صرف ایک انتظامیہ جسے عوام کی واضح حمایت اور مینڈیٹ حاصل ہو وہی پاکستان کو خطے میں غلامی سے نجات دلا نے کیلئے مزاحمت کی موثر پالیسی سازی کر سکتی ہے ۔ لہٰذا حالات کو قابو میں لاتے ہوئے آگے بڑھنے کا سب سے واضح طریقہ انتخابات ہی ہیں۔
اس عمل میں حکمران صرف اس لیے رکاوٹ ڈال رہے ہیں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنےمبینہ جرائم سے مستقل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائے ۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مزید کچھ وقت درکار ہو سکتا ہے کہ وہ قانون کے دائرے سے باہر رہیں اور ان کے اربوں روپےکے ذرائع کی بابت پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ صرف دو ماہ سے زائد عرصے میں عمرا ن خان کی دوسری مرتبہ بھرپور فتح نے اُنھیں اپنے تحلیل ہوتے ہوئے سیاسی مستقبل کے بارے میں مزید غیر یقینی پن کا شکار کردیا ہے ۔اس لیے کسی قسم کی ضمانتوں کی عدم موجودگی میں اس بات کا بظاہر کوئی امکان نہیں کہ وہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کی طرف بڑھیں۔ گویا نہ صرف محاذ آرائی کی صورتحال برقرار رہے گی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہوگا۔ نفرت اور تلخی کی سیاست کی آنچ اور تیز ہوگی۔
یہ ہے وہ صورت حال جہاں آج ملک کھڑا ہے۔ یہ ایک درجن سے زائد جماعتوں کے ایک ٹولے ،، اور ایک شخص، عمران خان، جو موروثی غلطیوں کو درست کرنےکیلئے پرعزم ہے، کے درمیان لڑائی ہے۔ اس کا مقصد اس بات کو یقینی بناناہے کہ تمام امیر، طاقتور، پسماندہ اور کمزور سب قانون کے سامنے برابر ہوں ۔
لیکن یہ کوئی سادہ سی عام لڑائی نہیں۔ یہ بدعنوان اشرافیہ کی سیاسی بقا کی جنگ ہے جس نے کئی دہائیوں سے ملک کی تقدیر پر قبضہ جما رکھا ہے ۔ درحقیقت، یہ جنگ مزید شدت اور تندی اختیار کرلے گی۔ احتجاج کے نقارے بجنا شروع ہوچکے ہیں۔ دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی ہے۔ راہ گزر پر قدم رکھتے ہوئے قیدمقام سے گزرنے کا وقت آچکا۔ کیا اب بھی کوئی عقلی فکری عمل کی شکل اختیار کرنے اور آنے والے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے اور اپنی لڑائی کسی اور دن کیلئے اٹھا رکھنےکا امکان ہے؟ بظاہر تو ایسے کسی امکان کا وجود محال دکھائی دیتا ہے۔ شاید مستقبل قریب میں بھی نہ ہو۔
پرانی اور بوسیدہ خرابیاں درست کرنے کی اس جنگ میں ابھی بہت سے موڑ اور گھمائو باقی ہیں، اور ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔‘‘