• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ سے نکل گیا۔ یہ فیصلہ پیرس میں ہونے والے اجلاس کے بعد سُنایا گیا۔ یہ مرحلہ طے کرنے میں تین حکومتیں اور ساڑھے چار سال کا عرصہ لگا۔ اسلام آباد نے تین مرتبہ ایف اے ٹی ایف کی عاید کردہ سخت شرائط پوری کیں۔ پہلی مرتبہ اسے27 ٹاسک دیے گئے، دوسری بار34 اور پھر 40 نکات پر عمل درآمد کا پابند کیا گیا۔ پاکستان نے کافی محنت کر کے یہ تمام اہداف حاصل کیے۔ پیرس اجلاس میں خارجہ امور کی وزیرِ مملکت، حنا ربّانی کھر نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ ایف اے ٹی ایف کے چار ماہ قبل ہونے والے اجلاس کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان نے تمام شرائط بخوبی پوری کردی ہیں۔

ستمبر اور اکتوبر میں ادارے کی معاینہ ٹیم پاکستان آئی اور مختلف شرائط کے عملی نفاذ کا جائزہ لیا۔ بعدازاں، ٹیم کی جانب سے مثبت رپورٹ دی گئی۔ اِسی دَوران وزیرِ خزانہ، اسحاق ڈار واشنگٹن گئے اور آئی ایم ایف کی شکایات دُور کیں۔ اُنہوں نے اپنے بیان میں توقّع ظاہر کی تھی کہ اِس بار ایف اے ٹی ایف اجلاس سے پاکستان کے لیے اچھی خبر آئے گی۔ یاد رہے،2018 ء کے وسط میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ میں ڈالا گیاتھا۔ 

سابق وزیرِاعظم، عمران خان کی حکومت کی بھرپور کوشش رہی کہ کسی طرح اِس فہرست سے نکلا جائے۔ مجموعی طور پر تمام اداروں نے مل کر اِس معاملے پر ایک مربوط حکمتِ عملی کے تحت کام کیا۔ گِرے لسٹ سے وائٹ لسٹ میں جانے کا مطلب یہ ہوا کہ اب پاکستان کسی بھی مُلک کے ساتھ بِلا روک ٹوک اقتصادی روابط قائم کر سکتا ہے۔ 

یہ روابط بڑے منصوبوں میں اشتراک، امداد، سرمایہ کاری اور تجارت سمیت سب شعبوں میں کام آئیں گے۔ سفارت کاری کی نظر سے دیکھا جائے، تو اِس ضمن میں پاکستان کی جانب سے خاموش اور لو پروفائل ڈپلومیسی اپنائی گئی۔ حنا ربّانی کھر خارجہ امور کی ایک تجربہ کاراورسلجھی ہوئی ماہرہیں۔ اُنہیں سفارتی دائو پیچ کا علم ہے اور یہ بھی کہ مُلکی مفادات کیسے آگے بڑھانے چاہئیں۔ پہلے کام یابی کی توقّعات کا اِتنا شور مچتا تھا کہ جب ناکامی ہوتی، تو عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ جاتی۔ حکومت کو شرمندگی اُٹھانی پڑتی اور مختلف قسم کے جواز تلاش کرنے پڑتے، جن میں سب سے اہم بات یہ ہوتی کہ ہمارے خلاف دشمن مُلک کام یاب ہوگئے، حالاں کہ اُن کی کام یابی ہماری سفارتی ناکامی تھی۔ 

کسی بھی حکومت کی ہمیشہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی مفادات کے لیے عوام کی توقّعات اُس مصنوعی بلندی تک نہ لے جائی جائیں، جہاں سے اُترتے وقت اُنھیں ذہنی کوفت ہو اور وہ اپنی غلطیاں درست کرنے کی بجائے دوسروں کو کوسنے لگیں۔ پہلے آئی ایم ایف سے قرضہ ملنا اور پھر ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ سے نکلنا، شاید عام آدمی تو اِس کی افادیت کم ہی سمجھ سکے، لیکن مُلک کے لیے یہ ایک بہت بڑی کام یابی ہے۔ عوام تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کم ہوگئی۔ اب تاجر بھی خوش ہوجائیں گےکہ اُن پر بےجا پابندیاں نرم ہوں گی۔ 

مالیاتی ادارےبھی اطمینان کا سانس لیں گے۔ تاہم، معاشی ماہرین جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی طرف بار بار جانا پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں، کیوں کہ یہ رویّہ مُلک کی درست اقتصادی سمت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور شاید اب غلطیوں کی مزید گنجائش بھی نہیں رہی کہ اِس مرتبہ جس طرح قرض کے لیے شرائط ماننی پڑیں اور گِرے لسٹ سے نکلنے میں جودشواریاں درپیش آئیں، وہ ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ ہر مُلک پاکستان سے تعلقات قائم کرنے سے ڈرتا رہا کہ کہیں گِرے لسٹ میں ہونے کے سبب وہ بھی اقتصادی پابندیوں کی زَد میں نہ آجائے۔ یہ جو کہاجاتاہےکہ ہمارے قریبی دوست بھی ہماری مدد سے ہچکچاتے تھے، اُس کا سبب یہی گِرے لسٹ اور آئی ایم ایف پروگرامز ہیں۔ 

افسوس، ہمارے ہاں نعرے بازی کی سیاست نے سب کچھ نظروں سے اوجھل کردیا۔ یہاں تک کہ معیشت بھی اس کی نذر ہوگئی۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ہم اِسی دنیا میں رہتے ہیں اور اِسی سے لین دین کرنا ہوگا۔ تجارت کی بات تو الگ رہی، ہمارے طلبہ کے بیرونِ ممالک داخلوں میں بھی یہ گِرے لسٹ ایک رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ کون زرِ مبادلہ دے گا، اگر اُس کے آمدنی اور خرچ کے ذرائع کا پتا نہ ہو۔ ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو جان لینا چاہیے کہ ٹھوس معاشی حقائق کیاہوتے ہیں اور صرف نعرے بازی کی حیثیت کیا ہے۔ دنیا کے ساتھ رہنا ہے، تو اُس کے اصول بھی اپنانے ہوں گے۔ یہ کام تو چین جیسی بڑی طاقت کو بھی کرنا پڑا کہ دنیا میں معاشی کام یابی کے لیے اُس نے جگہ جگہ سمجھوتے کیے۔

ایف اے ٹی ایف کی گِرے لسٹ کی ایک بڑی وجہ افغانستان، قبائلی علاقے، صومالیہ اوردیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی بھی تھی، کیوں کہ اِس ادارے کا اصل کام نائن الیون کے بعد شروع ہوا، جب دہشت گردی بڑھی اور دنیا اس کے تدارک کےاقدامات پر مائل ہوئی۔ یہ صرف مغرب کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ اس میں مسلم ممالک، چین، روس، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور نیوزی لینڈ جیسے دُور افتادہ ممالک تک شامل تھے۔ سوال یہ کیا جاتا کہ ان دہشت گرد تنظیموں کے پاس وہ سرمایہ کہاں سے آتا ہے، جس کے ذریعے وہ دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔

اُن کے ہتھیار، کارندوں کی تن خواہیں، خوراک اور دیگر اخراجات کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،جب کہ ڈالردرختوں پرتو نہیں لگتےکہ جب چاہا، وہاں سے توڑ لیے۔ آخر کوئی تو ان کی مدد کرتا ہے۔ اِسی لیے دنیا کا تین باتوں پر بہت زور تھا۔ ٹیرر فنانسنگ، یعنی دہشت گردی کے لیے سرمائے کی فراہمی، ملوّث افراد کی گرفتاری اور ایسےقوانین کا نفاذ، جن کےذریعے دہشت گردوں کو سزا ہوسکے۔ دنیا اِس پر حیران تھی کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود ملزمان کیسے چُھوٹ جاتے ہیں اور اُنھیں سزا کیوں نہیں ملتی۔ پاکستان میں دہشت گردی کےکئی واقعات میں ملوّث افراد کو انجام تک پہنچنے میں برسوں لگ گئے۔ 

اُنھیں کہیں نہ کہیں ریلیف ملتا رہا، جو شہداء کےخون سے بےوفائی اور نظامِ انصاف پر بہت بڑا سوال ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اقدامات کو سیاسی کہا جاتا ہے اور یہ سچ بھی ہے کہ اس میں شامل کئی ممالک اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں تاکہ مخالف ممالک کو نیچا دِکھا سکیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی صُورت عالمی سطح پر کم ازکم ایک ایسا ادارہ تو موجود ہے، جو ٹیرر فنانسنگ کی نہ صرف نگرانی کرتا ہے بلکہ مختلف ممالک کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد تنظیم کے دبائو میں آئےبغیر اُن کی بیخ کُنی کریں۔ 

پاکستان سے زیادہ شاید ہی کسی نےدہشت گردی کے نقصانات کا سامنا کیا ہو، لیکن پھر بھی بدنامی اٍسی کےحصّے میں آئی۔ پاکستان کو ہر فورم پر اپنی صفائیاں پیش کرنی پڑتی ہیں۔ پاکستانیوں اور اُن کے پاسپورٹ کا دنیا بھر میں جو حال ہے، اُس کے ذکر سے سر شرم سےجُھک جاتاہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کےآخری چار بدترین پاسپورٹس میں شامل ہے۔ اِن مسائل کےحل میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرناہوگا،ہاں، سمت اوروسائل کی فراہمی حکومت کی ذمّے داری ہے۔ اگر ہم نے بین الاقوامی قوانین کی پاس داری نہ کی، تو پھر اِسی گِرے اور بلیک لسٹ کے ہیر پھیر میں رہیں گے۔

جب آئی ایم ایف یا ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کا ذکر آتا ہے، تو پاکستانی اُن سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اُن کی جانب سے عاید کردہ پابندیوں کو بےجا سمجھتے ہیں اور اُن کے مطابق، ایسا پاکستان کو کسی کام پر مجبور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عام آدمی ہو، یا کوئی تعلیم یافتہ شخص، سب کے خیالات عموماً اِسی نوعیت کے ہیں۔ پھر یہ کہ سیاست دان بھی قوم کو بتاتے ہیں کہ اُن سے پہلی حکومتیں قوم کو غلام بنانےکےلیے کس طرح عالمی اداروں کی شرائط تسلیم کرتی رہیں۔ 

عوام میں یہ تاثربھی عام ہےکہ عالمی ادارےاور زیادہ تر ممالک پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوّث ہیں۔ بلکہ کچھ ’’ماہرین‘‘ تو یہ بھی ثابت کرتے پِھرتے ہیں کہ عالمی ادارے وجود میں ہی اِس لیے آئے ہیں کہ پاکستانی عوام کو ایک عالمی ایجنڈے کے تحت تباہ کیا جا سکے۔ اِن نام نہاد ماہرین نے کبھی یہ تک سوچنا گوارہ نہ کیا کہ جن عالمی اداروں پر وہ پاکستان کے خلاف سازش کے الزامات لگاتے ہیں، اُن میں چین، تُرکی، سعودی عرب اور ملائیشیا جیسے ہمارے قریبی دوست اور برادر ممالک بھی شامل ہیں۔ اور ہم پر جو شرائط یا پابندیاں عاید کی جاتی ہیں، اُن میں اِن ممالک کے ووٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔ 

تو کیا اِس کا یہ مطلب ہوا کہ یہ دوست ممالک دو چہرے رکھتے ہیں۔ اُن کا ایک رُوپ ہماری دوستی، امداد اور تعاون کا ہے، جس کا ہم شُکریہ ادا کرتے رہتے ہیں اور دوسرا چہرہ اُن اداروں کی رُکنیت کا ہے، جس کے ذریعے وہ ہمیں تباہ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ یہ کس قدر بےوقوفی کی بات ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں میں ہماری مخالف لابیز کام کرتی ہوں، لیکن یہ کہنا کہ وہ سال کے365 دن پاکستان کے خلاف مصروف رہتی ہیں، سمجھ سے بالاتر بات ہے۔ دنیا میں پاکستان جیسے کئی ممالک ہیں اور اُن کےنظریات بھی ہم سےمِلتے جُلتے ہیں، لیکن وہ سفارت کاری سے اپنے مسائل حل کر لیتے ہیں۔

دشمنی اور مخالفت میں بہت فرق ہے۔ مخالف کو دلائل سے سمجھایا جاسکتا ہے، لیکن دشمنی تو جان لینے اور جان دینے کا معاملہ ہے۔ اب75 سال بعد تو ہمیں دنیا کو برتنےکی سمجھ آجانی چاہیے۔ سیاست یا اندرونی جوڑ توڑ ایک الگ معاملہ ہے، جب کہ دنیا کے ساتھ چلنا بالکل الگ بات ہے۔ اب پاکستانی عوام، سیاست دانوں اور اداروں کو اِتنی توعقل آہی جانی چاہیےکہ وہ دوسروں کے تنازعات میں ٹانگ اَڑانے سے پہلے گزشتہ تباہیوں کو سامنے رکھ لیں۔

پاک، امریکا تعلقات برسوں سے گرہن کی لپیٹ میں ہیں۔ کچھ حصّوں میں روشنی، تو کچھ میں اندھیرا۔ صدر جوبائیڈن کا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں حالیہ بیان اس کی ایک مثال ہے۔ اِس حسّاس معاملے پر پاکستان کی جانب سے بیانات بالکل واضح ہیں، جن میں امریکی صدر کا بیان مکمل طور پر مسترد کیا گیا۔ امریکی سفیر کو دفترِ خارجہ بُلا کر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور صدر بائیڈن کے بیان پر وضاحت بھی طلب کی گئی۔ دوسرے ہی دن امریکا کی طرف سے وضاحت آگئی کہ اُنہیں پاکستان پر مکمل اعتماد ہے کہ اُس کے ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول اور کمانڈ محفوظ ہے۔

اگلے ہی دن ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی واضح کردیاگیا کہ پاکستان ایک ذمّےدار ایٹمی مُلک ہےاوراس کےاسٹریٹیجک اثاثوں کی سیکیوریٹی عالمی معیار کے مطابق ہے۔ جب امریکا جیسا سُپر پاور اٹھارہ سال افغانستان پر قبضہ رکھنے کے بعد ایک رات خاموشی سے اپنےفوجیوں کو نکال کر چلتا بنا، تو پھر اُس سے یہ کیسے توقّع کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی دوسرےمُلک کادفاع کرے گا۔ نیز، امریکی صدر بار بار کہہ بھی چُکے ہیں کہ کسی مُلک کی دفاعی ذمّے داریاں اُٹھانا اُن کا کام نہیں۔ یوکرین کی جنگ بھی خود یوکرینی ہی لڑ رہے ہیں۔ 

ویسے بھی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا میں اپنی دل چسپی ختم کرنے کااعلان کرچُکا ہے اور وہ عملاً اِن علاقوں میں موجود بھی نہیں ہے۔ ایٹمی اثاثوں پرصدر بائیڈن کا یہ کوئی سرکاری پالیسی بیان نہیں تھا، بلکہ وہ ایک تقریب میں دنیا کے مختلف ممالک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ صدر بائیڈن یوکرین جنگ کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ نومبر میں ہونےوالے امریکی ایوانِ نمایندگان کے انتخابات میں اُن کی پارٹی کو سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ ٹرمپ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف، بائیڈن کی مقبولیت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ 

اِس بیان سے چند روز قبل ہی اُن کی وزیرِ اعظم، شہباز شریف سے ملاقات ہوئی، جس کی تصویر سرکاری طور پر جاری کی گئی۔ پھر آرمی چیف نے ایک ہفتے تک امریکا کا دورہ کیا، جس میں امریکی سلامتی امور کے مشیر اور وزیرِ دفاع سے ملاقات ہوئی۔ پاکستان اِن دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبرد آزما ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی مُلک ہو، جسے اِن دنوں اِس نوعیت کی تباہی کاسامناہو اورپھر اوپر سےامریکا جیسی سُپر طاقت کی ایٹمی اثاثوں سے متعلق بے وقت کی راگنی۔ پاکستان نے امریکا کے معاملے میں حکومتی سطح پر اعتدال کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ 

عمران خان جلسوں میں خواہ کچھ بھی کہتے رہیں، لیکن امریکا سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے اُنہوں نے بھی ایک لابنگ فرم سے معاہدہ کیا ہے، جسے ماہانہ25 ہزار ڈالر ادا کیے جا رہے ہیں۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتاہےکہ امریکا کوسازشی قراردینےوالے عمران خان بھی اُس سے تعلقات کے لیے کتنے بےقرار ہیں اور اسے کس قدر اہم سمجھتے ہیں۔ گو، امریکا کی وزارتِ خارجہ نے اپنے صدر کے بیان کو خود ہی جھٹلا دیا، لیکن ظاہر ہے کہ اس نے پاکستانی عوام کے لیے کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ 

کورونا اور اب یوکرین جنگ نے دنیا کو بڑی مشکل سے دوچار کیا ہے۔ ہر مُلک سے منہگائی اور مالیاتی کٹوتیوں کی خبریں آرہی ہیں۔ عام آدمی کے لیے، خواہ وہ کسی بھی مُلک سے تعلق رکھتا ہو، زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں عالمی سطح پر تعاون کی جس قدر ضرورت آج ہے، شاید ہی پہلے کبھی رہی ہو۔ کہتے ہیں، گرد بیٹھنے کے بعد مطلع صاف ہوجاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ گرد اُڑانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟