• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کے میڈیا اسکالرز، ابلاغ عامہ کے مسلسل جاری و ساری طلاطم، مختلف پہلوئوں اور موضوعات کے حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔ ان علمی اختلافات سے ہی تحقیق کی نئی نئی راہیں نکلیں اور ماس کمیونیکیشن کسی بھی سائنس کی طرح ایک مکمل باڈی آف نالج (ڈسپلن) میں ڈھل گئی، جس سے میڈیا مینجمنٹ اور اس کے پیشہ ورانہ رویے درست اور زیادہ پروفیشنل بنانے میں بہت مدد ملتی ہے۔ عجب ہے ان علمی،تحقیقی اور نظریات (تھیوریز) کے اختلافات سے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے، جو اکثر میڈیا انڈسٹری کے مفادات کا ہی تحفظ کرتا ہے، علمی صحافیوں کی مرضی و منشا، آزادی اور نظریات کی تسکین و ترویج بھی اس سے ہوتی ہے۔ نہیں ہوتا تو علمائے ابلاغیات (میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسکالرز) کے اس اتفاق سے کچھ نہیں کھلتا جس پر دنیا بھر کے میڈیا اسکالرزاور محقق یک رائے ہیں۔ وہ یہ کہ ’’میڈیا انسانی معاشرے کا آئینہ ہے‘‘ اور اسے ہونا بھی چاہیے کیونکہ اس کی خدمات لینے والے پیپل ایٹ لارج (سوسائٹی) ہیں۔ انہی (عوام الناس) کی سرپرستی و پذیرائی یا سب سے بڑے اور قریب ترین اسٹیک ہولڈر کے طور پر میڈیا سے مسلسل جڑے رہنے میں ہی اس (میڈیا) کی اہمیت، طاقت اور ثمر آوری ہے۔ لیکن آج کے جدید دور میں جبکہ ظہورِ صحافت کو ساڑھے چار صدیاں بیت گئیں، میڈیا سوسائٹی کا آئینہ بھی پوری طرح نہیں بن سکا، جس کا تقاضا تو یہ ہے کہ وسیع تر انسانی معاشرے کے وہ تمام تر پہلو ایک ممکنہ توازن اور ترجیح کے اعتبار سے قارئین ، سامعین و ناظرین کے سامنے لائیں جائیں، جس میں ان کے دکھ سکھ اور بہتری کی ضرورتوں کی نشاندہی ترجیحی بنیادوں پربقدر جثہ کی بنیاد پر ہو۔ تاہم جیسے جیسے میڈیا کا حجم اور اس کی ابلاغی سکت میں اضافہ ہو رہا ہے اس کا مقصد میڈیا اسکالرز کی متفقہ رائے کہ ’’میڈیا معاشرے کا آئینہ ہے‘‘۔ اپنی اس محدود شکل میں بھی کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ مسئلہ کسی خطے، اقتصادی حیثیت اور ترقی کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ عالمگیر میڈیا کےبڑے مسائل اور الجھنوں یا مجبوریوں میں سے ایک ہے۔ ایسے کہ یہ ’’عوام الناس‘‘ کےمسائل اتمامِ حجت کے طور پر مسلسل کور تو کرتا ہے لیکن معاشرے کی اصل ضرورتوں کو ایڈریس کرنے کی بجائے، میڈیا اسکالرز کے ہی اب ایک اور اتفاق رائے کے مطابق یہ ایٹ لارج معاشرے کو نظر انداز کرکے محدودمعاشرتی لیکن طاقتور طبقوںکے ’’ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ حکومت،سیاست، بزنس، شو بزنس، سپورٹس اور مختلف النوع اشرافیہ ہی میڈیا انڈسٹری کی لائف لائن (ذرائع آمدن) کا محتاج ہے۔ سو ان محدود طبقات کے مفادات و دلچسپی کے موضوعات عوامی مشکلات و مسائل ،ضروریات اور حل کے مقابلے میں واضح غائب ہیں۔ میڈیا نے اس ایجنڈے کو اتنا حاوی کردیا ہے کہ اپنے سب سے بڑےسٹیک ہولڈر معاشرے (قارئین، سامعین وناظرین) کواس کا نشئی بنا کر رکھ دیاہے، اور اسے ہی اپنی دلیل بنا لیا ہے کہ لوگ سیاست، بزنس، شو بزنس، سپورٹس اور جرائم کے اسی’’ایجنڈے‘‘ کو دیکھنا سننا چاہتے ہیں۔ حالانکہ میڈیا نے یہ ایجنڈا سیٹنگ اپنی معاشی مجبوریوں کے مطابق کی ہے۔ اگر ہم اسے پاکستانی تناظر میں دیکھیں تو دنیا بھر کے آزاد اور ترقی یافتہ ممالک کے میڈیا کا مسئلہ اور رحجان بھی یہ ہے کہ پبلک افیئرز کی رپورٹنگ اورتجزیے فقط اتمامِ حجت کے طور پر ہی کئے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں دو قانونی نظام، بیڈ گورننس ، کرپشن، سیاسی بلیم گیمز اسی کا شاخسانہ ہیں، جن پر سیاسی ابلاغ کے حوالے سے بہت کچھ آتا ہے۔لیکن ہم نے غربت، مہنگائی کی حقیقت، بیمارتعلیمی ،سماجی اور سیاسی نظام کو ان کی گہری جڑوں اور حل کے ساتھ کیسے اور کب رپورٹ کرنا ہے۔ اس پر اگر متعلقین نے قومی علمی ڈائیلاگ کا کلچر پیدا نہ کیا تو بے سمت و غیر منظم آزاد سوشل میڈیا، منفی انداز میں مین سٹریم میڈیا اور اس کے ایجنڈے پر غالب سیاست و کاروبار کوبھی متاثر کرے گا۔ متعلقین کے لئے دعوتِ فکر ہے۔ واضح رہے ترقی یافتہ دنیا میں اس مسئلے کے حل کے لئےپبلک افیئرز جرنلزم کی ایڈوانس ایجوکیشن کا آغاز ہوگیا ہے کہ ہر انسانی معاشرے میں انتہائی رپورٹ ایبل ایریاز، اَن رپورٹیڈ یا ادھوری رپورٹنگ میں مکمل نظرانداز یا ادھورے ہو کر رہ گئے ہیں۔

پاکستانی صحافی کی شہادت

صبح کے روز مرہ معمولات کے بعد آج صبح ’’آئین نو‘‘ قلمبند کرنے لگا ،ایک تہائی بھی مکمل نہ ہوا تھا اچانک بھتیجی کا فون آیا کپکپاتی سی انداز میں یہ اندوہناک اطلاع دی ’’چاچو ارشد شریف صاحب کو قتل کردیا گیا‘‘۔ پوچھا کب اور کیسے؟ بتایا’’تفصیل معلوم نہیں ابھی سوشل میڈیا پر یہ مختصر خبر دیکھی ہے، اللہ کرے غلط ہو، لیکن خبر ان کی بیگم نےتصدیق کی ہے۔‘‘چند منٹ بعد ہی مین اسٹریم میڈیا پر بھی قومی صحافت کی یہ المناک خبر آنے لگی۔ بڑا ستم ہوا۔ دیار غیر (کینیا) میںاعلیٰ پیشہ ور صحافی کا یہ بہیمانہ قتل موجود ہیجان انگیز سیاسی صورتحال میںایک بڑا دھچکا ہے۔ بلاشبہ ارشد شریف ہمارے پرآشوب سیاسی، صحافتی ماحول میں قابل تقلید ذمہ دار، متوازن، شائستہ اور غیر جذباتی صحافی تھے۔ اپنی پیشہ ورانہ پریکٹس میں نیوز رپورٹنگ اور تجزیوں کے حوالے سے علم ابلاغیات کے گراں قدر اصولوں کی پیروی اوراطلاق میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ وسیع تر دلچسپی کی حامل خبروںپرجہاں جاندار سوالات بنتےوہاں انہیں کمال پیشہ ورانہ جرأت سے اٹھاتے۔ نیوز رپورٹنگ صحافت کا مرکز و محور اور سب سے چیلنجنگ جہت ہے۔ تحقیقاتی یا تفتیشی رپورٹنگ (INVESTIGATIVE) اور تشریحی یا توضیحاتی (EXPLAINATORY) دونوں ایڈوانس رپورٹنگ کے زمرے میں آتی ہیں، ارشد دونوں میں یکتا اور ان کے تحقیقی حوالوں سے پرمغز تجزیوں پر دسترس رکھنے والے ملکی صحافیوں میں نمایاں تھے۔ یوں وہ میدان صحافت میں اترنے والے جواں سال صحافیوں اور ابلاغیات و صحافت کے طلبہ کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھےاور ہیں۔ ان کی شہادت سے ملکی صحافت بھی زخمی ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی بیوہ پانچ کمسن بچوں اور جگر گوشے سے محروم ہونے والی سراپا غم ضعیف والدہ کا حامی و ناصر ہو۔ نہ جانے کتنے بڑے جرم میں اور کس نے ہمارے ملک و صحافت پر یہ ظلم ڈھایا۔ اس کی تحقیق کرانے میں حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے؟

تازہ ترین