• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی بار فقیر نے ہاتھ جوڑ کر ادب سے گزارش کی ہے کہ آپ سوچا کریں۔ خدا کے فضل وکرم سے، ہمارے ملک میں سوچنے پر کسی قسم کی کوئی پابندی لگی ہوئی نہیں ہے۔ آپ جو چاہیں، سوچ سکتے ہیں۔ پابندی صرف سوچ پر عمل درآمد کرنے کی ہے۔ آپ اگر اپنی سوچ پر عمل درآ مد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پھر سب سے پہلے اپنی سوچ کو کاغذ پر اتاریں۔کاغذ پر لکھی ہوئی سوچ کودوچار مخصوص اداروں کے پاس لے جائیے۔ اداروں میں تعینات سیانے چھان بین کے بعد آپ کو بتائیں گے کہ کاغذ پر اتاری ہوئی آپ کی سوچ قابلِ عمل درآمد ہے بھی یا نہیں ہے۔زیادہ تر سوچیں عمل درآمد کے قابل سمجھی نہیں جاتیں۔سوچیں دوطرح کی ہوتی ہیں۔ ایک نوعیت کی سوچیں خود مختارindependentہوتی ہیں۔ اپنی مرضی سے آتی رہتی ہیں۔ روکنے ٹوکنے سے رکتی نہیں ہیں۔ ایسی سوچیں بڑی خودسر ہوتی ہیں۔ ایسی سوچیں لگاتار آتی رہتی ہیں اور انسان کو پاگل بناکر چھوڑ دیتی ہیں۔ خودسر سوچوں سے جان چھڑانے کے لیے قلبی سکون کا راستہ تلاشنے اور سمجھانے والے دانشوروں نے دنیا کے بے چین لوگوں کوMeditation یعنی’ دھیان کو قابو کرنے کی تدابیر‘ کی گردش میں ڈال دیا ہے۔ سر ِدست خود سر منفی سوچوں کو ہم زیر بحث نہیں لائیں گے۔ خودسر سوچیں ہمارے موضوع کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ ہم ایسی سوچوں کے بارے میں بات کریں گے جو خود بہ خود ہمارے دماغ میں نہیں آتیں۔ ایسی سوچوں کو مائل کرنا پڑتا ہے، راغب کرنا پڑتا ہے۔ ایسی سوچوں کو حیلے بہانوں سے قائل کرکے بلانا پڑتا ہے۔مثال کے طور پر تاریخ کے ایک نادر اور حیرت انگیز باب کے بارے میں جب تک آپ سوچیں گے نہیں، تب تک تاریخ کے دیگر ابواب بند رہیں گے۔ بند ابواب کو کھولنے کے لیے آپ کو لازمی طور پر سوچنا پڑےگا۔تب جاکرہمیں اصل حقائق کے بارے میں علم ہوگا۔انگریز نے برصغیر کا بٹوارہ کیا۔دوممالک وجود میں آئے، پاکستان اور ہندوستان۔ انگریز نے دونوں ممالک کو ترقی پذیر چھوڑا تھا۔ ہمیں سوچنا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا؟ دونوں ممالک کے نصیب میں عداوتیں، چپقلش اور کشمکش لکھی ہوئی تھی اور دونوں ممالک کے عام لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ دونوں ممالک کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ کھیلا جائے تو لگتا ہے جیسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ ہورہی ہے۔ یہ بذات خود سوچ طلب موضوع ہے جس پر بحث ہوسکتی ہے۔ یہ بہت ہی گھمبیر مسئلہ ہے۔ دونوں ممالک کے سیاستدان 75برسوں سے اپنی اپنی نسلوں کو محبت کا امرت پلانے کی بجائے نفرت کازہر پلارہے ہیں۔ تاریخ کے اس المناک پہلو پر ہم پھر کبھی مل بیٹھیں گے اور سوچیں گے۔سردست ہمیں سوچنا چاہیے کہ پچھلے 75 برسوں میں ہندوستان نے سائنس،ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں اس قدر ترقی کی ہے کہ ہندوستان کاموازنہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جاپان، چین اور امریکہ سے ہونے لگا ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، ڈاکٹر عشرت حسین صاحب کا ہندوستان کی مجموعی ترقی کے حوالے سے تین قسطوں میں تجزیہ انہی صفحات پر شائع ہوا تھا۔ آپ پرانے اخبار ٹٹولیں اور ڈاکٹر عشرت حسین صاحب کا تجزیہ پڑھ کر دیکھیں۔ ہندوستان ہم سے بہت آگے نکل گیاہے۔ اس نکتہ پر آپ کو سوچنا ہے۔خودسرمنفی سوچوں نے ہمیں ذہنی طور پر اس قدر مفلوج کردیا ہے کہ اب ہم اپنی بھلائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈIMFنے ہمیں قرضوں میں جکڑ کر بین الاقوامی بھکاری بنادیا ہے۔ ہمارے برعکس ہندوستان انیس سوبانوے کے بعد آج تک آئی ایم ایف کا مقروض نہیں رہا ۔ آپ سوچیں کہ ایسا کیوں ہے۔ سوچے بغیر کام نہیں چلے گا۔پچھلے دنوں ایک ٹیلیویژن چینل سے ایک صاحب فخریہ انداز میں بتارہے تھے : کیا کچھ نہیں ہے ہمارے پاس ۔ قدرت کا دیا سب کچھ ہے، ہمارے پاس۔ ہمارے پاس سونے، چاندی، اور تانبے کی کانیں ہیں۔ ہمارے پاس پیتل ہے۔ ہمارے پاس گرینائٹ ہے۔ نایاب ہیرے جواہرات ہیں۔ ہمارے پاس سیب ہے، انار ہے، آڑو ہے، خوبانی ہے، کیلا ہے، کشمش ہے، انگوراور آم ہے، تربوز ہے،خربوزہ ہے، مالٹا ہے، موسمبی ہے،کینو ہے، گندم ہے، چاول ہے۔ بھیڑ بکریاں ہیں گائیں ہیں۔ وافر دودھ، دہی اور پنیر ہے۔مانا کہ ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ قدرتی وسائل ہیں۔ ہمارے پاس گیس ہے، کوئلے کے ذخائر ہیں۔ خام تیل ہے جس سے پیٹرول بنتاہے۔ سب کچھ ہے ہمارے پاس تو پھر ہم ترقی کی دوڑ میں دیگر ممالک،خاص طور پر اپنے پڑوسی سے اس قدر پیچھے کیوں رہ گئے ہیں؟ یہی ہے سوچنے کی بات مگر ہم سوچتے نہیں، ہمیں سوچنے کی عادت نہیں ہے۔ ایک ہی دن ، آج سے75 برس پہلے ہندوستان اور پاکستان دنیا کے نقشے پر عالم وجود میں آئے تھے،دونوں ممالک کے پاس ایک جیسے وسائل تھے۔ توپھر کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ایک ملک نے ترقی کی اور دوسرے ملک نے ترقی نہیں کی۔معاملہ اس قدر آسان نہیں ہے۔ روز اول سے ہمارے ہاں سیاسی افراتفری تھی اور اب تک ہے، انیس سواکہتر میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے مشرقی پاکستان نے ہمیں الوداع کہا اور بنگلہ دیش بن کر دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔حیران کن حقیقت ہے کہ ترقی کی دو ڑ میں بنگلہ دیش بھی ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ آخرہمارا پرابلم کیا ہے؟ کیا ہم ایک نیا ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے؟ ہم نااہل تھے؟ نالائق تھے؟ انتظامی امور سے نابلد تھے؟ یا ہم سب، بنیادی طور پر کرپٹ تھے اور ہیں۔ اور اپنے ہی ملک کودیمک کی طرح چاٹ گئے ہیں؟ سوچا کریں۔سوچنے سے بند ابواب کے کواڑ کھل جاتے ہیں۔

تازہ ترین