• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاسی صورتحال کی طرح معاشی ترقی کا سفر بھی مسلسل نشیب وفراز سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے بڑے بڑے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں سے لے کر ایک عام مزدور تک اضطراب میں مبتلا ہے کہ کل کیا ہو گا؟ اگرچہ سیاسی عدم استحکام سے ملک کے معاشی معاملات بھی متاثر ہو رہے ہیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے جس طرح معاشی افق پر دھند چھائی ہوئی ہے ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عالمی سطح پر روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث تیل اور گیس سمیت زرعی اجناس کی قیمتیں نیچے نہیں آ رہی ہیں اور دوسری طرف یورپ میں سردیوں کی آمد کے باعث انرجی اور پاکستان میں تاریخی سیلاب کے باعث زرعی اجناس کی مانگ میں اضافہ اپنی انتہا پر پہنچا ہوا ہے ۔ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت عوام کو اعتماد میں لے کر معیشت کا پہیہ چلانے کے لئے فوری فیصلے کرتی لیکن مفتاح اسماعیل کے بعد اسحاق ڈار بھی اس بحران سےنکلنے کے لئے انہی روایتی طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں جن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک طفیلی ریاست بنا کر زیادہ سے زیادہ امداد یا قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف حاصل کیا جا سکے ۔ حالانکہ ماضی میں یہ نسخہ متعدد بار آزمانے کے باوجود پاکستان یا اس کے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی چند روز پہلے ہی ایکسپورٹ انڈسٹری کے احتجاج اور تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسابقتی انرجی ٹیرف بحال کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ اعلان بھی کر دیاہے کہ یہ انرجی ٹیرف جون 2023ء تک کے لئے ہے اور یکم جولائی 2023ء سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایکسپورٹ انڈسٹری کو وقتی طور پر ریلیف تو مل گیا ہے لیکن مستقبل میں انرجی ٹیرف میں اضافے کی تلوار اب انڈسٹری کے سر پہ لٹکنا شروع ہو گئی ہے ۔علاوہ ازیں سیلز ٹیکس ریفنڈز کی مد میں حکومت کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران 50 ارب روپے کی عدم ادائیگی سے ایکسپورٹرز کو سرمائے کی قلت کے باعث ایک نئے بحران کا سامنا ہے ۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ریفنڈز کی فوری ادائیگی کے لئے بنایا گیا نظام 'فاسٹر بھی تعطل کا شکار ہے اور 16 ستمبر سے 17 اکتوبر 2022 کی مدت کے ریفنڈز پیمنٹ آرڈرز (آر پی اوز) بھی ادا نہیں ہو سکے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نومبر کے مہینے میں ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 20 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ صورتحال ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے زیادہ مایوس کن ہے کیونکہ برآمدات میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والا یہ سیکٹر گزشتہ کئی سال سے طویل المدتی منصوبہ بندی کے حوالے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں تیار کی جانے والی ٹیکسٹائل پالیسی تاحال نافذ نہیں کی جا سکی۔ اس تاخیر کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ابھی تک ٹیکسٹائل پالیسی کے لئے انرجی ٹیرف کا تعین نہیں ہو سکاحالانکہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے لئے خام مال اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قیمتوں کا کردار بھی اہم ہے جس کے بغیر کوئی بھی ایکسپورٹر بیرون ملک سے آرڈر حاصل کرنے کے لئے اپنے گاہکوں کو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی نرخ نہیں دے سکتا۔

مسابقتی نرخوں کی اہمیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر ٹیکسٹائل مصنوعات امریکہ اور یورپ کی منڈیوں میں برآمد کی جاتی ہیں جہاں ہمارا مقابلہ اپنےہمسایہ ممالک چین، بھارت اور بنگلہ دیش سے ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ملنے والے برآمدی آرڈرز میں اضافے کی بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے دیگر ممالک کی نسبت دیئے جانے والے بہتر مسابقتی نرخ تھے ۔ علاوہ ازیں ہمیں بھارت اور بنگلہ دیش میں کورونا کی وبا اور چین پر عائد امریکی پابندیوں کی و جہ سے بھی اپنا مارکیٹ شیئر بڑھانے کا موقع ملا تھا۔ گزشتہ حکومت کی بہتر پالیسیوں اور قدرت کی طرف سے پیدا کردہ موافق حالات کی وجہ سے اس عرصے میں پاکستان کی ہوم ٹیکسٹائل، ڈینم اور اپیرل کی مصنوعات کے برآمدی آرڈرزمیں تاریخی اضافہ ہوا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی کی اس محنت کاثمر موجودہ حکومت کو اس شکل میں ملا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل کی برآمدات میں 26 فیصد سے زائد اضافہ ہوا جس سے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں خاصی مدد ملی تھی۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ شعبہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں آٹھ فیصد سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے جبکہ ملک کے مجموعی برآمدی شعبے میں اس کا حصہ تقریباً60 فیصد سے زائد ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستان میں مینوفیکچرنگ کا سب سے بڑا شعبہ ہے جو صنعتی شعبے میں کام کرنے والی تقریباً 40 فیصد لیبر فورس کو روزگار فراہم کرتا ہے۔اس شعبے میں گزشتہ دور حکومت کے دوران ہونے والی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2018ء میں ٹیکسٹائل کی عالمی برآمدات میں پاکستان کا شیئر ایک اعشاریہ آٹھ فیصد تھا جو 2021 کے اختتام تک بڑھ کر دو اعشاریہ چار فیصد ہو گیا تھا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے مفاد میں گزشتہ حکومت کے دور میں تیار کی گئی ٹیکسٹائل پالیسی کے نفاذ کو فی الفور یقینی بنائے تاکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ترقی اور پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا سفر جاری رکھا جا سکے۔

تازہ ترین