• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکے کی تقسیم سے قبل فوت ہونے والے وارث کا حصہ کسے ملے گا؟

تفہیم المسائل

سوال: مُتوفیٰ زید کے ورثاء میں اُس کی ایک بیوہ اور چار بیٹے تھے ،ترکے میں تین پریمیم بانڈ، پینشن کی جمع شدہ رقم اور رہائشی مکان ہے ۔ جانشینی سرٹیفکیٹ کے حصول کے بعد بینک میں موجود اور پرائز بانڈز کی رقم مُتوفّٰی کے ایصالِ ثواب کے لیے بطور صدقہ جاریہ خرچ کر دی جائے، نیز مکان کی ممکنہ فروخت کے کمیشن پر خرچ کر دی جائے تو بقیہ ترکہ مکان کی فروخت سے حاصل شدہ رقم ہو گی۔ فرض کیا جائے کہ مکان ایک کروڑ چالیس لاکھ میں فروخت ہو تو بیوہ کو سترہ لاکھ پچاس ہزار ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم ایک کروڑ بائیس لاکھ پچاس ہزار روپے چاروں بھائیوں میں تیس لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو روپے فی بھائی تقسیم ہو جائے گی۔ محترم مفتی صاحب! اگردرجِ بالا حساب درست نہیں تو قرآن و سنت کی روشنی میں درست تقسیم سے آگاہ فرمائیں ۔ تقسیم سے قبل ایک بیٹا بکر فوت ہوگیا ، جس کی بیوہ حیات ہے ، اولاد کوئی نہیں ہے ۔ فوت شدہ بیٹے کا حصہ کس کے حوالے کیا جائے۔

مُتوفّٰی بیٹے کا ملتان روڈ پرایک مکان اُن کی بیوہ کے نام ہے ۔رائے ونڈ روڈ کے نزدیک ایک اور مکان جس میں دونوں میاں بیوی رہائش پذیر تھے، وہ مکان دونوں میاں بیوی کی ملکیت ہے۔ متذکرہ مکان کا آدھا حصہ بیوہ کے نام ہے، لیکن جو آدھا حصہ مرحوم بیٹے کی ملکیت ہے، اُس کا وارث کون ہے ؟،(ایک سائل ، لاہور)

جواب: صورتِ مسئولہ میں برصدقِ بیان سائل اگر ورثاء وہی ہیں ،جو سوال میں مذکور ہیں تو مُتوفّٰی زیدکا کل ترکہ 1152حصوں میں تقسیم ہوگا :

زید کی بیوہ کو 186حصے ، تین بیٹے جو حیات ہیں ،اُنھیں 903حصے(فی کس 301حصے)اور بکر کی بیوہ کو63حصے ملیں گے۔ درج بالا تقسیم زید کے تمام ترکے پر جاری ہوگی ،آپ نے رقم کی تقسیم کا جو تناسب سوال میں درج کیا ہے، وہ بکر(بیٹا) کی وفات سے پہلے کاہے ، چونکہ بکر لاولد ہے، اس لیے زید کے ترکے سے بکرکو ملنے والے حصے سے اُس کی بیوہ کو چوتھائی ، والدہ کو چھٹا حصہ اور بقیہ عصبہ ہونے کے سبب تینوں بھائیوں کومساوی ملے گا ۔تقسیم سے قبل ترکے سے ایصالِ ثواب کے لیے رقم علیحدہ نہ کی جائے ، بلکہ تقسیم کے بعد ہر وارث اپنے حصے میں جس طرح چاہے، تصرُّف کرے ،جو وارث چاہے ،زید کے لیے ایصالِ ثواب کرے، مُتوفّٰی کے ترکے میں وہ تمام ورثاء حصہ پاتے ہیں، جو ان کی وفات کے وقت حیات تھے ، اس کے بعد تقسیم ترکہ سے پہلے جو وارث وفات پاچکے ہوتے ہیں، ان کو زندہ فرض کرکے اُن کا حصہ مُتعین کرکے اُن کے ورثاء میں تقسیم کیاجاتا ہے، علم المیراث کی اصطلاح میں اسے مناسخہ کہتے ہیں، نیز یہ کہ فتویٰ میں ترکہ سے متعلق جائیداد کی الگ الگ تقسیم نہیں بتائی جاتی ،بلکہ تمام ترکے کو یکجاکرکے مجموعی مالیت نکالی جاتی ہے اور شریعت کے طے شدہ اصول کے مطابق اس کی تقسیم ہوتی ہے ،اگر ترکے میں سے بعض چیزیں کسی ایک وارث کے تصرُّف میں ہیں ، تو ورثاء باہم مل بیٹھ کر مالیت کا تعین کرلیں ، کسی کے پاس زیادہ چلا گیاہے تووہ اسے واپس کرے،کسی کے پاس کم گیا ہے تو اس کی کمی کو پوری کیا جائے ۔ لے پالک بیٹی ہو یا بیٹا،وارث نہیں بنتے، لہٰذا لے پالک بیٹی کو ترکے سے کچھ نہیں ملے گا ، البتہ اگر ورثاء اپنے اپنے حصوں سے لے پالک بیٹی کو کچھ دینا چاہیں ،تو یہ تبرُّع ہوگا لیکن شرعاً کوئی حصہ مقرر نہیں ہے ۔بکر کی ملکیت آدھا مکان اُن کے ورثاء ( بیوہ کو چوتھائی ، والدہ کو چھٹا حصہ اور بطور عصبہ تینوں بھائیوں کے درمیان مساوی تقسیم ہوگا۔