• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس دن یہ مضمون شائع ہوگا، لاہور سے شروع ہونیوالا آزادی مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواںہوگا۔ چار نومبر کو آزادی مارچ اسلام آباد پہنچے گا۔ اس مارچ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان کے مستقبل کا دارومدار اس سے حاصل ہونیوالے نتائج پر ہے ۔ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مارچ سیاست نہیں ملک کی سمت متعین کرنے کی کوشش ہے۔ انھوں نے پرامن رہنے کا عزم کیا، لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ دوسری جانب سے شرانگیزی کی جاسکتی ہے۔ پرامن ارادوں کے باوجوداُن کاکہنا تھا کہ وہ گرفتاری کیلئے بھی تیار ہیں:’’میرا بیگ تیار ہے‘‘۔واحد مطالبہ جس نے مارچ کو متحرک کیا وہ ملک میں جلد از جلد، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقادہے تاکہ ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جس پر عوام کو حقیقی اعتماد ہو اور جو ملک کو آگے لے جانے کا مینڈیٹ رکھتی ہو۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں مارچ کی کامیابی کچھ سیاسی خاندانوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے جنھوں نے کئی دہائیوں سے ملک پر اپنی گرفت جما رکھی ہے ،ریاست اور اس کے عوام کیلئے ٹھوس اور بامعنی تبدیلی کی تحریک بپا ہوسکتی ہے تو دوسری طرف اس کی ناکامی عمران خان کے اس دعوے کو بری طرح زک پہنچائے گی کہ اصلاحاتی ایجنڈے کیلئے اُنھیں عوام کی زبردست حمایت حاصل ہے ۔

مختلف عوامل نے اس مارچ کے انعقاد کو ضروری بنا دیا۔عالمی وبا کوویڈ سے کامیابی سے نمٹنے کے علاوہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے تیسرے سال کے اختتام تک ملک کو اقتصادی استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ ا س کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ترقی کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی ۔ غریب طبقوں کیلئے سماجی فوائد کی فراہمی کے ساتھ مربوط طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کیلئے اصلاحاتی اقدامات ملک میںایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔ ایک تاریخی غلطی کو درست کرنے کیلئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کا بھی تصور کیا گیا تھا۔ اس کی بنیادی توجہ علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اور ملک کے قومی مفادات کے مطابق پالیسیاں بنانے میں آزاد ہونے کےحق پر تھی۔نقطہ نظر میں یہ بنیادی تبدیلی ان قوتوںکیلئے ناقابل قبول تھی جن سے ہم نے وفاداری کا حلف لیا تھا۔ شروایتی طور پر یہ قوتیں پالیسی سازی کے طریقۂ کار پر اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ اس کے بدلے میں ایسے تعلقات قائم ہوتے ہیں جن میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے ۔ اس کا دارومداراس بات پر ہوتا ہے کہ امریکہ کو ہماری ضرورت ہے یا نہیں ہے ۔ ان تعلقات کا آغاز پاکستان کی آزادی کے بعد شروع ہو گیا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تعلقات کی جگہ یک طرفہ نے لے لی۔ ہم بڑی حد تک ایک ایسی کلائنٹ ریاست بن کر رہ گئے جو اپنے سامنے امداد کے نام پر پھینکی جانے والی خیرات پر قانع تھی یا پھر اس کو پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑدیا جاتا۔ جب بھی ضرورت پیش آتی،اس پر دبائو ڈال کر اپنی اطاعت پرمجبور کردیا جاتا۔ چنانچہ ملک کو دوبارہ غلامی کے دنوں میں لے جانے کیلئے خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔

پے در پے پیش آنے والے واقعات کے دوران تحریک انصاف کے بیک بینچرز کے ایک گروپ کی حمایت خریدی گئی، حکومتی اتحادیوں کو الگ ہونےکا حکم دیا گیا اور ریاستی اداروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا گیا۔ عدم اعتماد کے ووٹ کو آگے بڑھانے کیلئے زمین ہموار کر دی گئی۔ معزول حکومت کی جگہ مبینہ ملزموں کے ایک گروہ کو ملک چلانےکیلئے مسلط کردیاگیا ۔ اس ٹولے کا واحد مقصد خود کو اربوں روپے مالیت کے مقدمات سے بری کرانا تھا جو ان کے خلاف زیر التوا تھے۔ اس کے بعد سے انھوں نے قانون اور طریقہ کار میں خود ساختہ ترامیم کرنے کی کوشش کی ۔ ایسا کرتے ہوئے بنیادی پیغام یہ ارزاں کیا گیا کہ بدعنوانی کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر کوئی شخص اس میں سر سے پائوں تک لتھڑاہوا تو بھی ملکی خزانے کی چابیاں اس کے حوالے کی جاسکتی ہیں ۔ کسی بھی چیز سے بڑھ کریہ مارچ اس ذہنیت کو تبدیل کرنے، صحیح اور غلط کے درمیان فرق کی از سرنو لکیر کھینچنے اور تمام دھڑوں کی قانون کے سامنے مساوات قائم کرنے کے بارے میں ہے ۔کوئی شخص چاہے امیر ہو یا غریب، طاقتور ہو یا کمزور، آئین اورقانون کی عملداری سے باہر نہ ہو۔

یہ ایک مشکل کام ہے۔ یہ ایک آدمی ہے جو اس پوری حکمران اشرافیہ کے خلاف صف آرا ہے جس کے تصرف میں اس وقت وفاقی طاقت ہے اور انھوں نے جب بھی موقع ملا، اپنے اختیار کو سفاکی سے استعمال کیا ہے۔اب وہ منتخب نمائندوں اور سینیٹرز سمیت افراد کو حراستی تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس وقت بھی وزیر داخلہ کی طرف سے مظاہرین پر آگ برسانے اور اذیت پہنچانے کے بیانات کی بمباری جاری ہے۔گزشتہ چھ ماہ میں عوامی سرگرمیوں کے ایک سلسلے کے ذریعے خان نے لوگوں کے ذہنوں سے خوف نکال دیا ہے۔ وہ اب ایک مختلف گروپ کے طور پر سامنے آئے ہیں، جو اس تحریک کو بامقصد بنانے کے جذبے سے لبریز ہیں۔ وہ اپنی منزل کے حصول کیلئے پرعزم ہیں چاہے راستے میں کوئی بھی رکاوٹ کیوں نہ آئے۔ان کے اعتماد، جوش، جذبے اور جنون کے سامنے نہ کوئی رکاوٹ ہے ، نہ فاصلہ، نہ مشکلات۔ پاکستان کو تباہی کے گڑھے سے نکالنےکیلئے یہ ایک پرامن انقلاب ہے۔ یہ انسانی روح کو زندہ کرنے کا مارچ ہے۔ یہ انسانی وقار اور آزادی کی بحالی کیلئے ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ مشکلات سے قطع نظر، یہ ایک قابل تعریف وجہ ہے ،جس کیلئے لڑنا ضروری ہے۔

تازہ ترین