• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی قیادت سے در پردہ مذاکرات کی ناکامی پر عمران خان لاہور سے اسلام آباد بذریعہ جی ٹی روڈ اپنے لانگ مارچ پر روانہ ہوچکے ہیں۔ اس ”آزادی مارچ“ کا آغاز ارشد شریف کے انتہائی قابلِ مذمت ، قتلِ ناحق اور اس کی تدفین کے اگلے روز اور ڈائریکٹر جنرلز آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کی عمران خان کے امریکی سازش اور مقامی سہولت کاروں کے بیانیے کے خلاف منہ توڑ پریس کانفرنس کے دو روز بعد ہوا ہے۔ بالآخر 2018 میں قائم کیے گئے ہائبرڈ کٹھ پتلی نیم سیاسی نظام کے تانے بانے ٹوٹ کر سامنے آگئے ہیں اور گزشتہ اپوزیشن جماعتوں کے جمہوری موقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ ہائبرڈ نظام کا واحد بینیفشری آپے سے باہر ہوچکا ہے اور اپنے سرپرستوں کے ہاتھ کاٹنے پر آگیا ہے،جن ہاتھوں نے اسے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سونپا تھا۔ گزشتہ پانچ ماہ سے جاری میر جعفر، میر صادق، سہولت کاروں اور غدار غدار کی رٹ نے آرمی لیڈر شپ کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ گو کہ عمران خان فوجی قیادت پر دباؤ تو اس لیے بڑھا رہے تھے کہ انہیں پھر سے مقتدرہ کی وہی ناجائز حمایت مل جائے جس کے طفیل آزمودہ سیاسی قیادتوں کو ذلیل و رسوا کر کے دیوار سے لگادیا گیا تھا اور عمران خان کی دیانت و امانت کی خیالی ریاست مدینہ کا خواب بُنا گیا تھا لیکن خان صاحب بھول گئے تھے کہ حماقت دہرانا بدتر حماقت ہے۔ مقتدرہ کا ان سے معاشقہ بری طرح سے ناکام ہوچکا تھا اور وہ طو ہاً و کرہاً نیوٹریلٹی پر مجبور ہوکر پیچھے ہٹ گئی، لیکن اب بھی لاڈلے کے ہیجان انگیز نخروں اور اشتعال انگیز طعنوں کو نظر انداز کیے ہوئے تھی، جس کی کہ آخر کوئی حد آنی تھی۔ بہت ہی خوفناک اشتعال انگیزیوں کو درگزر کیا گیا اور جب ارشد شریف کی خوفناک حادثاتی موت یا بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ بھی ماورائی قوتوں کے سر تھوپ دی گئی تو جیسے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ پہلی بار آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم اور آئی ایس پی آر چیف جنرل بابر پریس کے سامنے فوج کا نقطۂ نظر بیان کرنے آگئے۔ انہوں نے سائفر کی سازشی کہانی کو سو فیصد جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے عمران خان کے فوج مخالف دوغلے قول و فعل کو کھول کر سامنے رکھ دیا۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں دھاندلی کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی کوئی شہادت پیش کی جائے۔ راتوں کو بند کمروں میں لاڈلے کی غیر آئینی سیاسی کمک کی التجائیں اور دن میں الزامات کی بوچھاڑ اور یہاں تک کہ آرمی چیف کومزید ایکسٹینشن دینے کی دلکش آفرز اور ساتھ ہی سپہ سالار پر غداری کے الزامات۔ دونوں تھری اسٹار جنرلز نے فوج کی سیاست سے مکمل دست برداری اور آئین و قانون کے دائرے میں رہنے کے ادارہ جاتی اجتماعی فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے غیر سیاسی کردار کا دفاع کیا۔ ارشد شریف کے معاملے پر دونوں جنرلز نے مؤقف اختیار کیا کہ اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ تھا، وہ ایک عرصہ سے آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے ساتھ مل کر گرانقدر خدمات انجام دیتے رہے اور ان کا پاکستان سے باہر جانے کے بعد بھی دونوں اداروں کے افسروں سے رابطہ رہا۔ جنرل بابر نے ارشد شریف کے قتل کے معمہ کو حل کرنے کیلئےعالمی اداروں اور ماہرین سے مدد لینے اور تحقیقات میں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی۔ دو اعلیٰ فوجی عہدیداروں کی مشترکہ پریس کانفرنس سے فوج کے عمران خان کے ساتھ قریبی تعلقات کے دور کا ڈراپ سین ہوگیا۔

گو کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے آغاز پر سینیٹر اعظم سواتی پہ کئے جانے والے مبینہ تشدد کے مبینہ ذمہ دار دو افسروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے آئی ایس آئی چیف کو تحکمانہ انداز میں مخاطب تو کیا لیکن ملکی مفاد میں انہوں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ اپنے ”آزادی مارچ“ کی ٹون سیٹ کرتے ہوئے انہوں نے ”میں قوم کو آزادی دلاؤں گا، یا مرجانا قبول کروں گا“ کا دعویٰ تو کیا، لیکن فوج کے ادارہ جاتی بیان کے بعد کپتان بیک فٹ پر آنے پہ مجبور ہوگئے۔ ابھی انہیں آٹھ روز جی ٹی روڈ پہ مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے میں گزارنے ہیں اور عوام کے ریلے کو 4 نومبر کو پرامن احتجاج کے لیے اسلام آباد لے جانا ہے، اس دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح دہشت گردوں نے ارشد شریف کو دھمکی دی تھی جس کا تھریٹ الرٹ خیبرپختونخوا کی حکومت نے جاری کیا تھا، وہ پاکستان میں انارکی پھیلانے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک طرف سیلاب سے تباہ حال کروڑوں بے گھر اور بے آسرا لوگوں کی بحالی کے لیے تقریباً 16 ارب ڈالرز درکار ہوں گے اور پاکستان عالمی ماحولیاتی انصاف کا طلبگار ہےاور دوسری جانب اسلام آباد میں ایک خوفناک سیاسی طوفان بپا ہوگا تو دنیا ہمیں کیوں سنجیدگی سے لے گی؟

لیکن عمران خان کو اس کی کیا پروا؟ انہیں فکر ہے تو نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور آئندہ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کی۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تو اب فوج کے سیاست سے کنارہ کش رہنے کے عزم کی ہی مظہر ہوگی اور سنیارٹی کے اصول سے روگردانی مشکل نظر آتی ہے جو عمران خان چاہتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ عمران خان کو اتنی مقبولیت حاصل ہونے کے بعد بھی مقتدرہ کی بیساکھیوں کی کیا ضرورت ہے، یا پھر انتخابات اگلے برس اگر مارچ کی بجائے مقررہ وقت پر اکتوبر میں ہوں تو بھی انہیں کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں اور اتحادی حکومت کے پاس ایٹمی دھماکوں جیسا کوئی معجزہ بھی نہیں جو وہ اس قلیل عرصہ میں دکھا پائے گی۔ لگتا ہے فوج نے سیاست سے ہاتھ کھڑے کرنے اور عمران خان کے بیانیے سے ہوا نکالنے میں دیر کردی ہے۔ عمران کے بیانیے کا جو جادو چلنا تھا وہ چل چکا اور اس کا نشہ جلد ہرن ہونے والا نہیں۔ اگر کوئی بڑا حادثہ نہ ہوگیا جس کی کہ بہت سی وارننگز مل رہی ہیں، تو ان کے اس لانگ مارچ سے ان کے حامیوں کو سیاسی تھکاوٹ اور مایوسی کے سوا کچھ ٹھوس ملنے والا نہیں۔ 25مئی کو اگر وہ دھرنے کا اعلان نہ کرتے تو اتحادی حکومت مستعفی ہوکر انتخابات کا اعلان کرنے ہی والی تھی۔ اب بھی کسی درمیانی تاریخ پہ شاید کوئی اتفاق رائے کرنے کی راہ نکل سکتی تھی لیکن اس لانگ مارچ نے اس کے امکان کو بھی معدوم کردیا ہے۔ عمران خان اب اپنی سیاست کرنے میں آزاد ہوچکے ہیں۔ اب اگر ایک قدم غلط اُٹھائیں گے تو انہیں وہ بری طرح سے الٹا پڑے گا اور اگر ایک قدم سیاسی مصالحت کے لیے اُٹھائیں گے تو وہ اپنی مستقبل کی سیاست کو بچاسکتے ہیں۔ مقتدرہ کی نیوٹریلٹی انہیں سُوٹ کرتی ہے اور اتحادی حکومت کے لیے کمزوری کا باعث ہے۔ انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایک جمہوری و آئینی راستہ اختیار کر کے اپنے جمہوری پن کو ثابت کرنے اور اس پہ کھڑا رہنے کا عزم کرنا چاہئے۔

تازہ ترین