• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر قومی اسمبلی میں بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور حکومت جسے عوام دوست بجٹ قرار دے رہی ہے، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی سمت ہی نہیں۔ یہ عوام کی بھلائی کے لئے بنایا ہی نہیں گیا۔ اسے نہ عوام دوست کہا جا سکتا ہے، نہ کسان دوست اور نہ مزدور دوست، یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اس سے نوجوانوں کے لئے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ یہ صرف الفاظ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے جس سے ملک کے معاشی مسائل حل ہوں گے نہ عوام کی حالت میں کوئی بہتری آئے گی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنی حکومت کا چوتھا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے مشکل حالات میں ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے جس سے صنعتی اور زرعی ترقی کی رفتار تیز ہو گی۔ مہنگائی کنٹرول میں رہے گی اور تین سو ارب روپے کے جو نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں ان کا بوجھ عام آدمی پر نہیں پڑے گا۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنی طویل تقریر میں حکومتی اعداد و شمار کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کسی منصوبہ بندی کے بغیر پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں جی ڈی پی کی گروتھ 4.7 فیصد ہونے کا دعویٰ بھی غلط ہے۔ اصل گروتھ 3.5 ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ بجلی کے منصوبے 2018 تک مکمل ہونے کے دعوے بھی درست نہیں کیونکہ ان کے لئے مناسب فنڈز ہی نہیں رکھے گئے اس لئے یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ لوڈ شیڈنگ آئندہ دو سال میں ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے اس بات پر بھی حکومت کو مطئون کیا کہ بجلی چوری بڑے لوگ کرتے ہیں، مارا غریب جاتا ہے۔ انہوں نے ٹیکسوں کے نفاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ نشاندہی بھی کی کہ ملک کی 20کروڑ کی آبادی میں سے صرف اعشاریہ 7 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ حکومت ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانے کی بجائے بالواسطہ ٹیکس لگا کر وسائل کی کمی پوری کرتی ہے جس کا سارا بوجھ کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ ترقیاتی اہداف کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں ان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، موجودہ حکومت نے جتنے قرضے لئے ہیں اتنے تو پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں لئے گئے۔ اس کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والا ہر بچہ ایک لاکھ 8ہزار روپے سے زائد قرضے کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ حکومت عوام کو صحیح اعداد و شمار بتائے تو قوم روکھی سوکھی کھا لے گی مگر قرضہ نہیں لینے دے گی۔ سید خورشید شاہ نے بجٹ کے حوالے سے اور بھی کئی خامیوں کا ذکر کیا اور ملکی معیشت کے تاریک پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے مفید مشورے بھی دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایس پی کی ساری رقم صرف بھاشا، داسو اور بونجی ڈیم پر لگا دی جائے تو 20ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی جس سے توانائی کا بحران ختم ہو جائے گا ۔ سید خورشید شاہ کا پچھلی حکومت میں بھی بڑا اہم کردار تھا۔ اگرچہ جو مشورے وہ موجودہ حکومت کو دے رہے ہیں ، اپنی حکومت کے 5 سال میں ان پر عملدرآمد نہیں کرا سکے لیکن ان کی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت وقت کی کمزوریوں کی نشاندہی اپوزیشن کا منصبی فریضہ ہے جسے مخالفت برائے مخالفت پر محمول نہیں کیا جانا چاہیئے۔ قومی بجٹ کا بنیادی مقصد عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کو یقینی بناناہوتا ہے۔ ملک میں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانا ہے تاکہ ترقیاتی کاموں کے لئے وسائل مہیا کئے جائیں۔ پھر بجٹ میں ان کاموں کی ترجیحات مقرر ہونی چاہئیں تعلیم، صحت اور روزگار کو سب سے زیادہ اہمیت ملتی چاہیئے۔ عام آدمی کی ضرورت کی اشیاء مہنگی نہیں ہونی چاہئے۔ چودہ ہزار روپے ماہانہ کی کم سے کم تنخواہ میں اوسط درجے کا ایک کنبہ بھی اپنا پیٹ نہیں پال سکتا اپنی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں روپے کا اضافہ کرنے والے قانون سازوں کو ان غریبوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں ایک مثالی غریب پرور بجٹ بنانا شاید ممکن نہیں لیکن حکومت کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کے قابل عمل نکات کو بجٹ کا حصہ بنائے اور اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھانے کے ساتھ ساتھ غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات کم کرے۔
تازہ ترین