• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے قرض لیا اوربے دھڑک لیتے رہے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب اس کا بوجھ ہماری برداشت سے باہر ہوچکا ہے ۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہم زیادہ تر رقم اپنے دفاع پر خر چ کرتے ہیں۔ ہم یقیناََ دفاع پر بھاری رقم خرچ کرتے ہیں، اتنی بھاری کہ جس کی ہم استطاعت نہیں رکھتے ، لیکن قرض کی ادائیگی کے لئے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم اب ہمارے دفاعی اخراجات سے تجاوز کرچکی ہے ۔ چادر سے باہر پائوں پھیلانے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔تاہم اپنا ہاتھ روکنے کی بجائے ہماری زمام اختیار سنبھالنے والے معاشی بقراط زیادہ سے زیادہ قرض لینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ میں اعداد وشمار کے چکر میں نہیں پڑتا، آپ اکتاہٹ کے مارے اونگھنے لگیں گے ۔ اس وقت ہم مارکیٹ میں انتہائی مہنگے بانڈ ز فروخت کررہے ہیں۔ تاہم ان کے ذریعے آمدنی حاصل نہیںہوگی بلکہ وہ پرانے بانڈز کی جگہ لے لیں گے ۔ ہم نے ایک اچھی خبر سنی ہے کہ مشرف دور میں اُن کے مفاد پرست ماہر ِ معاشیات، شوکت عزیز کے جاری کردہ بانڈ ز کی ادائیگی کرنے کے لئے اب ایک نیا بانڈ جاری کیا جارہاہے۔
یہ طرز ِعمل ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گا، اس کے لئے ہمیں یونان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یونان نے اپنی پہنچ سے بڑھ کر قرض لے لیا۔ اب اس کی فضول خرچی کا خمیازہ اس کی موٹی گردن والی اشرافیہ نہیں بھگت رہی ۔یہ یونان کے غریب عوام، جیسا کہ مزدور پیشہ ،، پنشن داراور دیگر کم آمدنی والے طبقے ہیں جو اشرافیہ کی فضول خرچی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ اب اُنہیں سمجھ آرہی ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے وضع کردہ کفایت شعاری کے اصولوں کاکیا مطلب ہے ۔ اگر ہم غیر ملکی قرضے لے کر اپنی صنعتی صلاحیت کو بہتر بناتے ، برآمدات کو بڑھاتے تو پھر ایک مختلف کہانی ہوتی ۔ اُس صورت میں ہم قرض لے کر اپنی ادائیگی کی صلاحیت بڑھاتے، جوکہ یقیناََ بہتر ین معاشی حکمت ِعملی ہوتی۔ تاہم ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا ۔ ہماری صنعتی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے ، برآمدات کا حجم سکڑ رہا ہے اور دوسری طرف ہم اندورنی اور بیرونی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ قرضے لے رہے ہیں۔ ہمارے معاشی جادوگر ، مسٹر اسحاق ڈار اسی کو ترقی کہتے ہیں۔ ہماری مالیاتی اور معاشی اشرافیہ نے قوم کے ساتھ ایک اچھوتا دائو کھیلا ہے۔ کسی بھی مستقبل کے مالیاتی بحران سے بچنے کے لئے اپنی زیرک فطرت سے کام لیتے ہوئے اُنھوں نے اپنی دولت بیرونی ممالک میں چھپا لی ہے ۔ وہ اس اسلامی جمہوریہ سے جز وقتی تعلق رکھتے ہیں،ان کے اصل مفادات، خاندانی اثاثے ، بنک اکائونٹس اور دیگر مالیاتی امور لندن ، دبئی، نیویارک اور دیگر من پسند جگہوں کے خوشگوار ماحول میں ہیں۔
بہرحال صورت یہ ہے کہ اب اسلام آباد اس اسلامی جمہوریہ کا برائے نام دارالحکومت رہ گیاہے ۔ہمارا دارالحکومت کم و بیش دبئی بن چکا ہے جہاںزیادہ تر خوشحال پاکستانیوں کی رقوم اور اثاثے جمع ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کی میٹنگز اب دبئی میں ہوتی ہیں۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ پاکستان خلیجی شہرپر دبائو ڈال کر پی ٹی سی ایل ڈیل کے آٹھ سو ملین ڈالر وصول کرنے کا روادار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس خلیجی ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات نہیں کرسکتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی اس رقم کی وصولی کا معاملہ درپیش ہو، وہ موم کی ناک بن جاتے ہیں۔ آپ شاید حیران ہوں گے کہ پاکستانیوں کی بیرونی ممالک میں جمع کرائی گئی دولت کہاں سے آئی تھی؟ یہ یقیناََ سائنسی اور تکنیکی ذرائع سے حاصل نہیں ہوئی تھی۔ کیا شریف یا زرداری فیملی نے کچھ ایجاد کیا تھا؟کیا اُنھوں نے مافوق الفطرت کاروباری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا؟ہر گز نہیں، پاکستان کی زیادہ تر بیرونی دنیا میں چھپائی گئی دولت کالا دھن ہے جو اقتدار اور سیاسی روابط کے راستوںسے گزر کر آتا ہے ۔ اب چاہے پاکستان بچے یا برباد ہو، ان کی بلا سے ۔ ان کے اثاثے محفوظ، ان کی زندگیاں مسرور، ان کے ’’دل‘‘ مطمئن۔ انہیں اگر کوئی فکر ہے تو اپنی بیرون ملک جائیداد کی، پاکستان کے قرض ِبحران سے اُنہیں کیا سروکار؟ بہرحال یہی وہ طبقہ ہے جس کے پاس فیصلہ سازی کا اختیار ہے ، اور دوسری طرف یہ قوم اور ا س کی آنے والی نسلیں ہیں جنھوں نے ان کی معاشی چالبازیوں کا خمیازہ بھگتناہے ۔
اصل مسئلہ سیاست کا ہے ۔ قوم کے مستقبل کو گروی رکھا جاچکا ہے ، لیکن قوم اس صورت ِحال کو برداشت کررہی ہے ۔ اس کی سیاسی جماعتیں اس مسئلے پر بڑی حدتک خاموش اور لا تعلق ہیں، ملک میں کسی جگہ احتجاج نہیں، کوئی پارٹی حکومت کو چیلنج نہیں کررہی ، اورنہ ہی کوئی اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتی دکھائی دیتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو بڑی حد تک احتجاجی سیاست کی ماہر جماعت قرار دیا جاسکتا ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بہت سے سرکردہ لیڈر خود بھی خلیجی ریاستوں اور لندن میں مہنگی جائیدادیں رکھتے ہیں۔ پاکستان کے غریب اور پسماندہ افراد کا فیصلہ سازی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ عملی طور پر اُن پر سیاست کے دروازے بند ہیں۔ اُن کا واحد عملی کردار سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں شرکت کرنا اور رہنمائوں کی باتیں سننا کہ وہ اُن کے لئے دھرتی کو سورج ، چاند ، ستاروں سے سجا دیں گے ، اور خوشنما رومانوی خواب دیکھنا ہے ۔ اس کے بعد الیکشن کے دن ووٹ ڈالنا اور اقتدار اور اس کی مختلف اشکال کے تسلسل کو یقینی بنانا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پاکستانی سیاست کو از سرنو ڈھالنے کا چیلنج کون اٹھائے گا؟یقینا وہ توا یسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے جن کا مفاد اس نظام سے وابستہ ہے ۔ یہ نظام ان کے مقاصد کو بطریق ِ احسن پورا کررہا ہے ، تو پھر وہ اپنے پائوں پر خود ہی کلہاڑ ا کیوں ماریں؟وہ اپنی لنکا خود ہی کیوں ڈھا دیں ؟ان کے نزدیک عوام بے حیثیت اور بے وقعت ہیں ۔ ہمارے ہاں پارلیمانی کھیل کا جھکائو ہمیشہ اشرافیہ کے حق میں رہا ہے ۔ اگر پاکستان کا معاشی وجود خطرے میں نہ ہوتا، اگر اس پر قرض کا بوجھ نہ لدا ہوتا توحکمرانوں کی طرف سے قوم کو دکھائے گئے سحر انگیزخوابوں کا کوئی نقصان نہ ہوتا ۔ کیونکہ یقین دلانا ہی سیاسی کھیل کا اہم ترین دائو ہے ۔ جدید جمہورتیوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن قرض کے جال میں جکڑی ایک ریاست کے سامنے بہت سے خطرات ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو صرف منتخب شدہ رہنما ئوں(جن کی ہمارے ہاں کمی نہیں)کی نہیں بلکہ ایماندار رہنمائوں کی ضرورت ہے ۔ ایسے ایماندار رہنما جن کی موجودگی پاکستان میں ہو تو دل کہیں آف شور اکائونٹس میں نہ اٹکا ہوا۔ اور پاکستان کے سامنے درپیش اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہاں بھس بھرے شیر تو ہیں، کوئی حقیقی رہنما نہیں۔
امید کی ایک کرن ہے کہ اگر پاناما لیکس سے اٹھنے والے دبائو کو برقرار رکھا جائے تو شاید ان کی صفوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوجائیں اور کچھ نئی قوتوں کو سامنے آنے کا موقع مل جائے ۔ اگر ایسا نہ ہو ا تو قرض لے کر وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کی پالیسی ملک کو مزیدتباہی سے دوچار کردے گی۔ ہٹلر برطانیہ کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوا تھا، برطانیہ کو مالیاتی طو رپر شدید دبائو کا سامناتھا، چنانچہ وہ اپنی وسیع و عریض سلطنت کو سنبھالنے کے قابل نہ تھا ، چنانچہ وہ توقع کے برعکس بہت جلد انڈیا سے رخصت ہوگئے ۔ معیشت ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے ۔ اگر آپ فضول خرچ ہیں ،لیکن آپ کے پاس فضول خرچی کے لئے دولت ہے تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ اس صورت میں چاہے جتنے مرضی فلائی اوور بنائیں، سرنگیں کھودیں، شاہراہیں تعمیر کریںِ، سب ٹھیک ہے ۔ لیکن اگر آپ پہلے ہی بمشکل دووقت کا گزارا کررہے ہیںتو پھر یہ عالی شان تعمیراتی منصوبے ایک دیوانگی سے کم نہیں۔ یہ ہے وہ پالیسی جس نے ملک کے مستقبل کو رہن رکھ دیا ہے ۔ یہ خود تو لندن اور خلیجی شہروں میں بھاری اثاثے رکھتے ہیں لیکن اُنھوں نے اس اسلامی جمہوریہ کے عوام کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔
تازہ ترین