• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔میکاولی نے کہا تھا کہ اس میں کوئی دائمی دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔کل کے دوست اچانک بدترین دشمن بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے مفادات کی نگرانی کرنے والے ایک دوسرے کے ہی راز افشا کرنے لگتے ہیں۔اسی لئے کسی دانا کی نصیحت ہے کہ سیاسی مخالف بھی خاندانی ہونا چاہئے کیونکہ وہ دشمنی بھی اصول سے کرتا ہے۔یہ سب باتیں مجھے تحریک انصاف کی اداروں سے تازہ محاذ آرائی کی نسبت سے یاد آئی ہیں۔کیونکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان آج سیاسی طور پر جو کچھ بھی ہیں،وہ اداروں کی جائز ،ناجائز سپورٹ کی وجہ سے ہیں۔2007میں میثاق جمہوریت طے پا جانے کے بعد اس وقت کی عسکری انٹیلی جنس کے سربراہوں نے تیسری سیاسی قوت کی اشد ضرورت پر زور دیا۔ جس کے بعدشجاع پاشا اور ان کے بعد تمام آنے والے انٹیلی جنس چیفس نے عمران خان کو تیسری قوت کے طور پر تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔عمران خان کی ہر طرح سے امداد کی گئی۔سیاسی پنچھیوں کی ضرورت تھی تو جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو تحریک انصاف کی بس میں سوار کروادیا گیا۔فنانس کا مسئلہ پیش آیا تو جہانگیر خان ترین اور علیم خان دے دئیے گئے۔ کاروباری حضرات کو کہا گیا کہ عمران خان کے ساتھ ہر صورت تعاون کریں،سب لوگوں تک ایک ہی بات پہنچائی گئی کہ نوازشریف بددیانت ہے اور عمران خان دیانتدارہے۔عمران خان کی مکمل سپورٹ کریں اور آئندہ الیکشن ہم نے اسی کو جتوانا ہے۔پھر نوازشریف کے خلاف منظم منفی مہم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پانامہ کا سہارا لیا گیا اور عدلیہ میں بھی جو عسکری اداروں کے خیر خواہ بیٹھے ہوئے تھے یاایسے جج صاحبان جو انٹیلی جنس ایجنسیز کی باتوں کو مستند تصور کرتے ہیں ،انہیں باقاعدہ قائل کیا گیا کہ پاکستان کو بچانا ہے تو نوازشریف کو نکالنا اور عمران خان کو لانا ہوگا۔اگر میں یہ کہوں کہ ادارے نے عمران خان کو اپنا قومی اثاثہ ڈکلیئر کیا ہوا تھا توشایدمبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔کیونکہ ججز،میڈیا ہاؤسز،صحافی حضرات،بزنس کمیونٹی،انتخابی حلقوں کے موثر لوگ،بیوروکریسی سمیت جہاں جہاں پر اداروں کے خیرخواہ بیٹھے ہوئے تھے،ان سب کو عمران خان کے سپرد کردیا گیا،بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ ادارے نے اپنی 74سال کی جمع پونجی عمران خان پر لگادی۔اس سب محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوازشریف نااہل ہوگیااور نااہل وزیراعظم بن گیا۔عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد اداروں میں بیٹھے فیصلہ ساز توقع لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان ایک بہت کریڈیبل(ذمہ دار) چہرہ ہے ۔ہم اس کو بین الاقوامی دنیا میں کیش کروائیں گے اور یوں پاکستان میں ڈالرز کی ریل پیل شروع ہوجائے گی۔وزیراعظم بننے سے پہلے عمران خان خود بھی ہر میٹنگ میں یہی دعوی کرتے تھے کہ دو،چار سو ارب ڈالر تو میرے لئے مسئلہ ہی نہیں ہے۔مگر بیچ چوراہے ہنڈیا تب پھوٹی جب سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے بہترین دوستوں کے پاس بھی جنرل باجوہ کو خود جا کر کہنا پڑا کہ پاکستان کی مدد کریں۔بہرحال عمران خان نے ساڑھے تین سال کے قلیل عرصے میں ہی ادارے کو ناکوں ناک چنے چبوادئیے۔پنجاب کی گورننس کا معاملہ ہو یا پھر مرکز میں عمران خان او ر ان کے ساتھیوں کی اربوں روپے کی کرپشن۔ہر رپورٹ اور سنجیدہ شکایت پر عمران خان ایسے تاثر دیتے تھے کہ جیسے فور اسٹار جنرل کی اکثریتی باتیں توجہ کے قابل نہیں ہیں۔ملک کی بدقسمتی رہی کہ سابق انٹیلی جنس چیف جنہیں نومبر2021میں ہٹایا گیا،انہوں نے عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر طرح کے جائز ،ناجائزاحکامات کی بجاآوری کی۔ایک غیر ذمہ دارسیاستدان کے پیچھے پورے ادارے کو اسٹیک پر لگا دیا۔بہرحال ان کے جانے کے بعد عمران خان کو بھی حکومت سے جاناپڑا،کیونکہ جو غیر آئینی سپورٹ وہ صاحب فراہم کررہے تھے،ادارے نے مزید سیاسی امداد اور مخالفین کو جیلوں میں ڈلوانے سے معذرت کرلی۔اس کے بعد سے عمران خان صاحب اس ادارے اور اس کے سربراہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں،جس نےان کو نہ صرف وزیراعظم بنایا بلکہ ساڑھے تین سال دھکے سے چلانے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ویسے محسن کش تو خان صاحب شروع سےہی ہیں۔

نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس ایک اچھا شگون تھا۔اگر کوئی ماضی کی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اسے دوبارہ نہ دہرانے کا عزم کرے تو اس کو سراہنا چاہئے۔مگر اچھا ہوتا کہ ایسی پریس کانفرنس چھ ماہ پہلے کی جاتی۔جھوٹ او ر فریب پرمبنی بیانیے کو پنپنے ہی نہ دیا جاتا۔جس شخص کو وزیراعظم بنانے کے لئے آپ نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیاتو اسے وزارت عظمیٰ سے ہٹانے سے قبل قوم کے سامنے کم از کم اس کا اصل چہرہ لے کر آتے۔بہت اچھا ہوتا اگر ماضی میں کسی وزیراعظم کو سپریم کورٹ کے ذریعے نکلوایا گیا تو اس کا بھی اعتراف کیا جاتا۔جے آئی ٹی سمیت ان تمام واٹس ایپ پر بننے والے بنچز کا تذکرہ کرکے غلطی پر معذرت کرلی جاتی۔کیونکہ اس قوم نے تو ہمیشہ آپ سمیت ہم سب کو معاف کیا ہے۔مگر ان سب اقدامات سے اس شخص کا بیانیہ ضرور دم توڑ جاتاجو خود کو دیانتدار اور اپنے مخالفین کو چور اور ڈاکو کہتا ہے اور اعلیٰ عدلیہ کے انہی فیصلوں کا سہارا لیتاہے جو شاید آپکی سپورٹ کے بغیر ممکن نہ تھے۔جب تک عمران خان کی منفی ساکھ قوم کے سامنے نہیں آئے گی اور عمران کے سیاسی مخالفین کی ساکھ بحال نہیں ہوگی،آپ نوجوان نسل کو راہ راست پر نہیں لاسکتے،کیونکہ انتہائی ادب سے عرض ہے کہ آپ نے عمران کی صرف سپورٹ نہیں کی بلکہ اپنا سب کچھ اس پر قربان کیا ہے۔

تازہ ترین