• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارسلان کا مستقبل تو پاکستان میں بھی بہترین ہوسکتا تھا کیونکہ وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھا اس نے لاہور کی معروف یونیورسٹی سے کمیونیکیشن انجینئرنگ میں بیچلرز ڈگری حاصل کی تھی ، جبکہ کھیلوں کے شعبے میں بھی اسکی کارکردگی بہترین تھی وہ اپنی یونیورسٹی میں بیڈ منٹن چیمپئن بھی رہا تھا، پھر وہ ایک تعلیم یافتہ خاندان کا چشم و چراغ تھا اس کے بڑے بھائی پاک فوج میں کرنل جبکہ دوسر ے بھائی میجر کے عہدے پر فائز تھے ، اس وقت ارسلان کی عمر کی صرف بائیس برس تھی جب چار برس قبل وہ آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے جاپان میں مقیم اپنے بہنوئی عبدالستار یاماموتو کی دعوت پر جاپان چلا آیا ،جہاں وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ ہی گاڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہوگیا ، لیکن شاید اسے معلوم نہ تھا کہ چار سال قبل شروع کیا جانے والا سفر بہتر مستقبل کی طرف نہیں بلکہ اس کی زندگی کےدردناک انجام پر اختتام پذیر ہوگا ، اس نے تو شاید خواب میں بھی یہ نہ سوچا ہو کہ جس بہنوئی نے اسے بہتر مستقبل کے خواب دکھا کر جاپان بلایا وہی اس کی موت کا سبب بھی بنے گا ، ارسلان نے اپنی ذہانت اور محنت کے سبب چندہی ماہ میں اپنے بہنوئی کے کاروبار کا تما م بوجھ اٹھالیااور اپنی محنت کے بل بوتے پر کاروبار کو کافی ترقی بھی دے دی ، اس نے جاپان میں بھی اپنے کھیلوں کے شوق کو برقرار رکھا اور فارغ وقت میں بیڈمنٹن بھی اعلیٰ سطح پر کھیلتا رہا اور کئی ٹورنامنٹ بھی جیتے ، لیکن شاید اس کا اپنے بہنوئی سے پہلا اختلاف اس وقت ہوا جب اسے معلوم ہواکہ اس کے بہنوئی نے جاپان میں ایک خفیہ شادی کررکھی ہے جس سے اس کی ایک بیٹی بھی ہے یہ بات ارسلان کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھی اور اسی معاملے پر ارسلان کی اپنے بہنوئی سے کئی بارتلخ کلامی بھی ہوئی ۔ بہنوئی کی جانب سے قانونی مجبوریاں اور اپنی پریشانیاں بیان کرنے کے باعث اور بہن کا گھر خراب ہونے سے بچانے کی خاطر ارسلان نے اس تکلیف دہ بات کا پاکستان میں اپنے گھر والوں سے ذکر نہ کیا لیکن وہ اس روز فیصلہ کرچکا تھا کہ اب بہنوئی کے ساتھ مزید کام نہیں کرے گا اور جیسے ہی موقع ملا وہ اپنی کمپنی قائم کرکے اپنے پیروںپر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا ،اس خواہش کا اظہار اس نے اپنے جاپانی شہریت کے حامل بہنوئی سے بھی کیا اس بات نے ارسلان کے بہنوئی کے پیروں تلے زمین ہی نکال دی کیونکہ ارسلان نے اس کا پورا کاروبار سنبھالا ہوا تھا ، جبکہ وہ اس کے تمام کاروباری حقائق سے بھی واقف ہوچکا تھا اور اگر ارسلان اس سے الگ ہوتا تو وہ نہ صرف اپنا بہترین کاروبار شروع کرسکتا تھا بلکہ اپنے بہنوئی کو سڑک پر لاسکتا تھا شاید ارسلان ایسا کبھی نہ کرتا لیکن بہنوئی نےاپنے غصے ،جلن اور نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ارسلان کو ہی قتل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی ،سب سے پہلے اس نے ارسلان کی ایک بھاری رقم جو کروڑوں میں بنتی ہے کی انشورنس اپنی کمپنی کے نام پر کرالی جس میں خود کو ارسلان کا وارث ظاہر کیا ، اس کے بعد اس نے پاکستان میں اپنے ایک بچپن کے دوست کو ارسلان کے قتل کے لئے راضی کیا اور ایک خطیر رقم روانہ کی تاکہ ٹارگٹ کلر کا انتظام کیا جائے ، پھر اس نے ارسلان کوزبردستی پاکستان بھجوایا ، دو مہینے تک ٹارگٹ کلر ارسلان کا پیچھا کرتے رہے لیکن مختلف وجوہات کی بناپر اس کو قتل نہ کرسکے جس کے بعد ارسلان نے ایک بار پھر واپس جاپان جانے کی کوشش کی تو بہنوئی نے یہ کہہ کر روک دیا کہ میں خود پاکستان آرہا ہوں پھر دونوں ساتھ ہی واپس جاپان آجائیں گے ،جس کے بعد ارسلان کا بہنوئی خود پاکستان پہنچا ، پھرجس دن وہ اور ارسلان واپس جاپان جانے کے لئے ائیرپورٹ کے لئے نکلے تو اچانک بہنوئی نے گاڑی لاہور کے نزدیک مرید کے کے قبرستان کی جا نب موڑ دی ، گاڑی میں موجود ارسلان کی بہن نے اعتراض کیا کہ فلائٹ میں صرف دو گھنٹے رہ گئے ہیں لہذا ائیرپورٹ کی جانب ہی چلا جائے لیکن بہنوئی کامنصوبہ تو کچھ اور ہی تھا ، وہ ارسلان کو لیکر قبرستان میں فاتحہ کے لئے چلا گیا جہاں پہلے سے ہی ٹارگٹ کلر موجود تھے جنھوں نے صرف ارسلان کو نشانہ بنا کر فائرنگ کردی اور ارسلان چند منٹوں میں ہی خالق حقیقی سے جاملا ،بہنوئی روتا دھوتا گاڑی میں آیا ،اپنی اہلیہ کو ڈکیتی نما اس قتل کے بارے میں آگاہ کیا اورپولیس کو بلوایا ، ارسلان کے گھر میں صف ماتم بچھ چکی تھی ، فوج میں اہم عہدوں پر فائز دونوں بھائی بھی موقع پر پہنچ گئے تھے ، پولیس نے بھی کیس کو اہمیت دیتے ہوئے کارروائی شروع کی ، بنیادی تفتیش میںہی قاتلوں کے بارے میں کافی کچھ پتہ چل گیا، پولیس کی اس تیز رفتاری پر بہنوئی گھبراگیا اور قتل کے اگلے روز ہی وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے جاپان روانہ ہوگیا جہاں اسے جاپانی شہریت کی آڑ میں چھپنے کے لئے بہترین ٹھکانہ حاصل تھا ، پاکستان میں تین دن بعد ہی پولیس نے قاتلوں کو گرفتار کرلیا جنھوں نے چند منٹوں میں ہی اگل دیا کہ قتل کے لئے جاپان میں موجود ارسلان کے بہنوئی نے ہی ہدایات دی تھیں اوررقم بھی جاپان سے ہی آئی تھی ،ارسلان کے گھر والوں کے لئے مشکلات ہی مشکلات تھیں ،ایک تو بھائی ناحق قتل ہوا جبکہ بہنوئی ہی قاتل نکلا جس سے بہن کا گھر بھی تباہ ہوگیا ، وہ تین ماہ سے بھاگ دوڑ کررہے ہیں لیکن کہیں سنوائی نہیں ہورہی ،پاکستان میں پولیس نے ایف آئی آر میں عبد الستار یاماموتو کو اہم ملزم قرار دے دیا ہے جبکہ ریڈ وارنٹ پر بھی کام ہورہا ہے ، جاپان میں پاکستانی سفارتخانہ کو بھی درخواست دی گئی ہے لیکن اس کی اپنی مجبوریاں ہیں ، ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان نے بھی اس معاملے کو وزیر اعظم ہائوس ، وزیر داخلہ چوہدری نثار کے سامنے بھی اٹھا یا ہے جبکہ جاپان میں پاکستانی سفیر فاروق عامل سے بھی اس معاملے کو جاپانی حکومت کے سامنے پیش کرنے کی درخواست کی ہے لیکن سفارتخانہ پاکستان کی اپنی مجبوریاں ہیں کیونکہ امریکہ اور جاپان پاکستان تو ہیں نہیں کہ وہاں جاکر قاتلوں کو گرفتار کیا جاسکے ، لیکن اپنی حدود میں رہتے ہوئے سفارتخانہ جو کرسکتا ہے وہ کررہا ہے ، مقتول ارسلان کے اہل خانہ انتہائی تکلیف کا شکار ہیں ، ان کے گھر کا ہر دلعزیز فرد ،ماںباپ کا لاڈلا ،بہن بھائیوں کے چہیتے ارسلان کا خون ناحق رائیگاں جاتا نظر آرہا ہے ، خاکی وردی میں ملبوس اس کے بھائی جو مادر وطن کے لئے اپنی جاں نثار کرنے کے لئے ہر دم تیار بیٹھے ہیں وہ اپنی بھائی کے لئے انصاف حاصل کرنے میں ناکام ہیں کوئی ان کی سننے والا نہیں ہے ، کیا اس ملک کے صدر ،وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ اور آرمی چیف کو مظلو م ارسلان اور اس کے اہل خانہ کی آہیں اور سسکیاں سنائی نہیں دے رہی ہیں ؟ جاپانی حکومت سے بھی درخواست ہے کہ پاکستانی نژا د جاپانی شہری عبدالستار یاماموتو جو اس قتل میں مبینہ طور پر اہم کردار ہے کوانصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
تازہ ترین