• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! ہیجان خیز ملکی حالات میں پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اور صحافی ارشد شریف کی شہادت کا فالو اپ مین اسٹریم خصوصاً سوشل میڈیا پر ’’نیوز ورک فلو‘‘ کے غالب موضوعات ہیں۔ کمیونیکیشن سائنس کے طالب علم کے طور پر میرے لئے ہر دو موضوعات رائے عامہ کی تشکیل کے حوالے سے انتہائی قابل مطالعہ و تجزیہ ہیں۔ بلاشبہ رائے عامہ کی تیز ترین تبدیلی و تشکیل پر بڑی سے بڑی اور معیاری سے معیاری ریسرچ سے اتنے حقیقی اور زیادہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے جو زیرِ بحث خبری فالو اپ کے ملک گیر اور عالمی بہائو سے حاصل ہو رہے ہیں۔ اپنی کیپسٹی بلڈنگ کیلئے ہمارے نیشنل کمیونیکیشن فلو کے تمام اسٹیک ہولڈرز خصوصاً یونیورسٹیوں اورسیاسی جماعتوں کے میڈیا سیلز اور آئی ایس پی آر جیسے منظم ادارے مطالعے، مشاہدے اور تجزیے و تحقیق سے غافل نہ رہیں اور رونما ہوتی کامیابیوں اور ناکامیوں کی کیس اسٹڈیز پر نظر رکھیں۔

جہاں تک عمران خان کے بالآخر شروع ہو جانے والے لانگ مارچ کا تعلق ہے ، اللہ کرے کہ یہ خان صاحب کی بار بار کی یقین دہانیوں کے مطابق پرامن ہی رہے اور حکومت بھی جو اسے روکنے اور اسلام آباد کی حدود میں داخلے کو ہضم کرنے سےگریزاں دکھائی دے رہی ہے، حالات کی نزاکت و حساسیت کو سمجھے،اپنی قانونی ذمے داری اپنی سیاسی ضروریات و ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر اسلام آباد کو ’’ماڈل ٹائون اور گلو بٹی اپروچ‘‘سے محفوظ رکھے۔ حکومت کو یہ درس دینے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے لیکن وزیر داخلہ رانا صاحب جتنے جارح سیاسی ابلاغ سے اپنی ’’تیاریوں‘‘ کی تکرار کر رہے ہیں، اب تو وزیر اعظم نے بھی اس کی توثیق کر دی ہے، اس سے لانگ مارچ کی نسبت کوئی بڑی مس ہینڈ لنگ ہونے کا دھڑکا تو رہے گا ۔ اور ہاں! عمران خان اتنی بڑی اور کھری عوامی تائید سے تشکیل دیئے لانگ مارچ کو ’’گنڈا پور ٹچ‘‘ سے بچائیں۔ جبکہ آپ کے سیاست میں یقین کی بنیاد ہی ’’اللہ، آپ ہی کی عبادت کرتے اور آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ کے قرآنی درس پر ہے، لانگ مارچ کے شرکاء ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ پر بار بار لبیک کہہ رہے ہیں‘‘ تو لائسنس یافتہ بندوق بردار ہی سہی، ایسے مسلح جتھوں کی لانگ مارچ میں کوئی گنجائش بنتی ہے؟۔بہتر نہیں کہ آپ مارچ کے سیاسی جمہوری اور نظریاتی تشخص کو قائم رکھیں اور عوام کے ساتھ بس اسی پر مکمل انحصار کریں۔

خان صاحب! غور کریں، اللہ کرے آپ کے لانگ مارچ کی محال لیکن عظیم سیاسی کاوش سے ملک و قوم اور آپ کی سیاست کیلئے کوئی بھلا نتیجہ نکل ہی آئے، لیکن ایک نتیجہ تو بہرحال نکل آیا آپ کیلئے عظیم خوش خبری ، اس کا یقین اور خبر تو آپ کوبھی یقیناً ہے کہ آپ لانگ مارچ کے اعلانات اور تیاریوں اور اس سے قبل اقتدار سے فارغ ہوتے ہی بڑے بے مثال اور سرگرم انداز میں عوامی رابطے میں آئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آپ لانگ مارچ کے اپنے ظاہری وباطنی مقاصد سے کہیں بڑا مقصد حاصل کرچکے۔لیکن یہ کتنی بڑی اور حساس کامیابی ہے شاید اس کا پورااندازہ آپ کو نہیں۔ یہ حاصل فقط آپ اور آپ کی جماعت کا نہیں یہ ریاست پاکستان اور پوری قوم کا ہے ،جو شدت سے اور عشروں سے مطلوب تھا لیکن اسٹیٹس کو (نظام بد) کی طاقت سے اپنی بے بس موجودگی اور نحیف حالت میں دبا ہوا تھا۔ یہ حاصل عملی سیاست کے اہداف سے برتر ہے۔ سیاسی شعور کی مطلوب بیداری، جس کو سوشل سائنس کی زبان میں ’’بی ہیورئیل چینج‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ خصوصاً معاشرتی سطح کی۔ تمام سوشل سائٹس اور ماہرین نفسیات انسانی زندگی کی اس حقیقت (مصدقہ نالج) پر متفق ہیں کہ انسانی زندگی کاسب سے مشکل ترین کام ’’ بی ہیورئیل چینج‘‘ ہے۔

خان صاحب! آپ کو یہ غلط فہمی بھی ہرگز نہیں ہونی چاہئے کہ سیاسی بیداری کی جو تیز تر لہر اسلامی جمہوریہ میں آئی، وہ اتنی سرعت سے کوئی آپ ہی نے جنریٹ نہیں کی۔ ایمان ہے کہ یہ فیصلہ آسمانوں پر ہوا کہ انتہا کی مایوسی کے عالم میں آپ کی بڑی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ہی خلق خدا کا نقارہ بج گیا۔ ملک بھر میں نگری نگری اور گائوں گائوں اسلامی جمہوریہ کے (میرے جیسے) گناہ گار جمہور اپنی ضمیر کی آواز بلند کرتے گھروں سے نکل آئے جو بوجوہ نہیں نکلے انہوں نے ’’جوہوا جیسے ہوا‘‘ اسے شدت سے محسوس کیا اور یہ انہیں ہضم نہیں ہوا۔ یہ وہ محرک تھا جسے آپ نے مومنانہ فراست سے سمجھ کر فوراً اس پر وہ سیاسی کردار ادا کیا جس کی کسی کو کوئی توقع نہ تھی، بہرحال یہ جو ایک حقیقی اور مطلوب تبدیلی اب برپا ہوتی معلوم دے رہی ہے وہ منجانب اللہ ہے، اس کا کوئی امکان تھا نہ اسباب لیکن اتنی بڑی اور اتنی تیز تر سماجی سیاسی رویے کی تبدیلی۔ یہ شیئرڈ اور عوام اور آپ کی مشترکہ ہے۔ حیرت تو عوامی ووٹ سے بنی نہیں ، ایک متنازعہ آئینی گنجائش اور ’’روایتی ضمیروں کی بیداری‘‘ سے بنی حکومت کی بھی ہے۔ عوام اس کو ہارس ٹریڈنگ کے نام سے ہی جانتے ہیں، ہوگی یہ آئینی لیکن نظام بد کے ایک خاصے کے طور پر پیپل ایٹ لارج کو ہضم نہیں ہوئی۔ ثابت ہوا کہ عوام وہ’’ دولےشاہ کے چوہے ‘‘ نہیں تھے جنہیں کچھ مایوس و بیزار تجزیہ کار اور گھاگ سیاست دان ایسے ہی جانتے تھے اور ہاں خان صاحب! آپ کی کاوشیں الیکشن 18ء کی طرح پھر ادھوری اور غیر متوازن ہیں۔ آپ کو آنے والے الیکشن میں جو واضح امکانی کامیابی حاصل ہونے والی ہے، آپ اسے سنبھالنے کے لئےتیار ہیں نہ موجودہ ٹیم کے ساتھ ایساکرسکیں گے۔ آپ موجود ہ صورت میں تو ہیں،مطلوب حد تک آئیڈیل قیادت نہیں ہیں اپنی کمزوریوں کو سمجھیں جو نہیں کرسکتے اسے مطلوب ٹیم سے پورا کرکے ہی آپ آئیڈیل قیادت میں ڈھل سکتے ہیں۔

پی ڈی ایم کے روایتی سیاسی قائدین کو ملین ڈالر ٹپ ہے کہ اپنے روایتی رویے میں خود تبدیلی لا کر غور فرمائیں کہ آپ نے ملک و قوم کو جو دکھ اور خسارے دیئے ہیں اوربار بار دیئے ہیں ان کا کفارہ کیونکر ادا ہوسکتا ہے؟ شاید اس طرح کے پروپیپل ایجنڈے پر غور فرمائیں، جس میں سیاست عوام کیلئے نہ کہ صرف اپنی اغراض کیلئے، بنیادی نکتہ ہونا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین