• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی پی اپنی تمام تر خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود سندھ اور سندھیوں کے مجموعی مزاج کااہم جزو ہے۔ جسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ پی پی پی وڈیروں کی جماعت ہے، اور انتخابات میں یہ وڈیرے زور زبردستی سے الیکشن جیت جاتے ہیں۔ کیوں کہ سندھ کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ یہاں وڈیرہ شاہی ہے اور وڈیرے ہمیشہ نا قابل شکست ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وڈیرے اور جاگیردار پی پی پی میں ضرور موجود ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر پی پی پی سے ٹکٹ نہ ملا تو وہ ناقابل شکست نہیں رہیں گے کیوں کہ تاریخی طور پر ایک بات جوہم بھلا دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ پی پی پی کے ٹکٹ پر ایک ہاری یا عام ورکر بھی اگر کھڑا ہوجاتا ہے تو بڑے سے بڑے وڈیرے کو شکست ہوجاتی ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں، یاد رہے پرویز علی شاہ جیسے عام آدمی نے پیر پگارا کو شکست دی تھی، حال ہی میں بدین میں ایک عام ورکر نے ذوالفقار مرزا خاندان کو شکست دی اور سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے پی پی پی مخالف لابی کا’’سندھ میں جاگیرداری‘‘کا پروپیگنڈا اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ کیوں کہ سندھ کے عوام کا مجموعی شعور اس بات پر متفق ہے کہ اگر کوئی جماعت ان کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گی تو وہ صرف پی پی پی ہے۔ 2002 کے انتخابات کے دوران پی پی پی اپوزیشن میں تھی، نہ شہید بینظیر بھٹو وطن میں تھیں اور نہ ہی آصف علی زرداری کھل کر سیاست کر پارہے تھے کیوں کہ وہ جیل میں تھے۔ ایم کیو ایم پرویز مشرف کے ساتھ کھڑی تھی اور پی پی پی کو سندھ سے باہر کرنے کیلئےحلقہ بندیاں بھی اپنی مرضی سےکروائی گئی تھیں۔ پولیس افسران بھی مرضی کے تعینات کروائے گئے ۔ اس وقت کی حکومت نے دیہی سندھ میں پی پی پی مخالف لابیوں کو مضبوط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، شہری سندھ تو پہلے ہی ایم کیو ایم کو دے دیا گیا تھا، دوسری طرف مذہبی رہنمابھی میدان میں تھے، لیکن ان انتخابات میں بھی پی پی پی سندھ کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، جسے عوام نے سب سے زیادہ نشستیں جتوانےکیلئے اپنی جانوں تک کے نذرانے بھی پیش کیے کیوں کہ ان انتخابات میں دھاندلی کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔ سندھ کےعوام نے 2002 میں پہلی بار ان عزائم کو خاک میں نہیںملایا تھا، اس سے پہلے بھی 1988، 1990 اور 1993 کے انتخابات میں سندھ کے عوام پی پی پی کے امیدواروں کو ناقابل شکست رکھنے میں اہم کردار ادا کر چکےتھے اور 2002 کے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس سے پہلے 1997 میں سندھ سے پی پی پی کو مجموعی طور پر ختم کردیا گیا تھا، ان دھاندلی زدہ انتخابات میں اس وقت کے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ نے پی پی پی کو بالکل محدود کردیا تھا اور ایک ایسے وقت میں جب وڈیرے اور جاگیردار بھی پی پی پی چھوڑ گئے تھے تو 2002 کے انتخابات میں ہم نے دیکھا کہ کیسے بڑے بڑے برج پی پی پی کےالٹ گئے۔ اور پھر 2008 کے انتخابات میں کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کو شہید بی بی کی شہادت کا ووٹ ملا جو سراسر غلط ہے کیوں کہ کم و بیش پی پی پی کے پاس وہ نشستیں رہیں جو 2002 میں اس کے پاس تھیں اور ان میں معمولی اضافہ ہوا جس سے تنہا حکومت بنانا آسان نہ تھا، یہ انتخابات بھی ایک آمر کی چھتری تلے ہوئے اور پوری کوشش کی گئی کہ پی پی پی کو کم سے کم نشستیں دی جائیں پھر 2013 میں میمو گیٹ سے لے کر کرپشن کی کہانیوں تک پی پی پی کے خلاف زور و شور سےپروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ سندھ میں اس کی مقبولیت کو کم کیا جا سکے۔ تاہم سندھ کے عوام نے ہر پروپیگنڈہ مسترد کردیا اور پھر 2018 میں بھی یہ مشق دہرائی گئی لیکن حاصل وصول کچھ نہ ہوا کیوں کہ ایک بار پھر سندھ کے عوام نے بھٹو مخالف لابی سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا اور پی پی پی میدان میں فاتح ٹھہری، وہ جو پی پی پی پر اور سندھ پر جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی کا الزام لگاتے ہیں، یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ پی پی پی ہی ہے جو ایک غیر مسلم کو عام نشست پر ٹکٹ دیتی ہے تو سامنے کھڑا بڑے سے بڑا جاگیردار ہار جاتا ہے، یہ پی پی پی ہے جس کی قیادت اور وزارت اعلیٰ سندھ میں قائم علی شاہ جیسے مڈل کلاسیوں کے پاس رہی ہے اور آج کا وزیر اعلیٰ بھی کوئی جدی پشتی بڑا زمیندار نہیں ہے بلکہ ایک عام آدمی ہے۔ شہلا رضا، شرجیل میمن، سعید غنی، شازیہ مری، شرمیلا فاروقی اور وقار مہدی سمیت پی پی پی کے بڑے بڑے رہنما متوسط طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں، مگر افسوس کہ اس کے باوجود چند نام نہاد دانشور سندھ کو اور سندھیوں کو جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی سیاست کا اسیر گردانتے ہیں۔

تازہ ترین