• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے کسی نے ٹویٹ کی، کچھ دیر بعدٹی وی پر خبر چلی اور پھر تفصیلات آنا شروع ہوئیں ۔ ایک ’نجی‘ چینل کی رپورٹر صدف نعیم ’کنٹینر‘ تلے آکر جاں بحق ہوگئیں ، وہ لانگ مارچ کی رپورٹنگ کر رہی تھیں ، اِس دوران انہوں نے کنٹینر پر چڑھنے کی کوشش کی، ہجوم میں اُن کا پاؤں اکھڑ گیا یا انہیں دھکا لگا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور یکدم گر گئیں ، کنٹینر اُن کے اوپر سے گزر گیا، موقع پر اُن کی موت ہو گئی ، مرحومہ کے دو بچے تھے ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ، شوہر فوٹو گرافر تھا۔صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے مرحومہ کے لیے بالترتیب پچیس اور پچاس لاکھ کی امداد اور اُن کے بچوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا ہے ، لوگوں نے انہیں شہید کہا، اُن کے درجات کی بلند ی کی دعا کی ، آج انہیں فوت ہوئےتیسرا دن ہے ، دنیا چل رہی ہے اور ایسے ہی چلتی رہے گی۔سچ پوچھیں تو صدف نعیم خوش قسمت تھی ، وہ جان دے کر اپنے بچوں کے لیے چار پیسوں اور نوکری کا بندوبست کر گئی ، زندہ رہتی تو اپنی پوری زندگی میں بھی یہ کام نہ کر پاتی۔

اِس المناک واقعے کے دو پہلو ہیں ۔ایک یہ کہ ہمارے ملک میں رپورٹر کی زندگی بہت عجیب ہے ، بظاہر اُس کے ہاتھ میں مائیک ہوتا ہے اور وہ نہایت اعتماد کے ساتھ بڑے بڑے لوگوں سے سوا ل کررہا ہوتا ہے ۔ ٹی وی دیکھنے والوں کو یوں لگتاہے جیسے یہ کوئی آئیڈیل قسم کی نوکری ہے جس میں مزے سے بس مائیک لے کر گھومنا ہے اور چلتے پھرتے خبر بنا دینی ہےجبکہ حقیقت میں ایک عام ٹی وی یا اخبار کا رپورٹر ، خاص طور سے اگر وہ کسی چھوٹے میڈیا گرو پ سے وابستہ ہو،تقریباً بغیر تنخواہ کے ہی کام کرتا /کرتی ہے ، اگر وہ خوش قسمت ہے تو اُس کی تنخواہ تیس سے چالیس ہزار روپے ہوگی لیکن یہ اسے کبھی وقت پر نہیں ملے گی اور اکثر اوقات تنخواہ ملنے میں کئی ماہ کی تاخیر بھی ہوسکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سرے سے تنخواہ ہی نہ ملے۔ چھوٹے ٹی وی چینل کے رپورٹر کے پاس کوئی کیمر ہ یا سواری نہیں ہوتی ، اسے دفتر کی طرف سے ایک مائیک دیا جاتا ہے تاکہ ٹی وی پرجب یہ مائیک کسی کے آگے رکھا جائے تو چینل کا نام جلی حروف میں پڑھا جا سکے۔یہ غریب رپورٹر کسی ساتھی کے ہاتھ میں اپناموبائل فون پکڑا کر انٹر ویوریکارڈ کرتے ہیں، کہیں آنا جانا ہو تو لفٹ مانگتے پھرتے ہیں اور اگر بیمار پڑ جائیں تو اِن کے پاس کوئی بیمہ پالیسی نہیں ہوتی جس کے بل پر یہ اپنا علاج کروا سکیں ۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ بیس تیس ہزار کی ملازمت کیوں کرتے ہیں ،جواب یہ ہے کہ وہ میڈیا کی طاقت کی وجہ سے کرتےہیں، یہ طاقت نجی شعبے کی کسی اورنوکری میں نہیں، یہ ایک ایسا نشہ ہے جو انہیں چین نہیں لینے دیتا، کچھ لوگوں نے یہ نوکری چھوڑنے کی کوشش کی مگر چند ماہ بعد وہ اِس نشے کے ہاتھوں مجبور ہوکردوبارہ اسی تنخواہ اور کام پر واپس آگئے ۔اِس ضمن میں میڈیا کی تنظیموں کا کردار بھی قابل رشک نہیں ،اِس وقت ملک بھر میں صحافیوں کی درجنوں تنظیمیں ہیں، اِن میں سے کوئی ایک تنظیم بھی اب تک صحافیوں کے لیے ڈھنگ کی بیمہ پالیسی کا بندوبست نہیں کرسکی، اصولاً تویہ کام میڈیا مالکان کوکرنا چاہیے، انہیں نہ صرف اپنے ملازمین کا بیمہ کروانا چاہیے بلکہ لیبر قوانین کے تحت انہیں سال میں کم ازکم دوہفتے کی چھٹیاں دینی چاہئیں ، اُن کے گریجویٹی فنڈ میں تنخواہ کا دس فیصد حصہ ڈالنا چاہیے اور مستقل بیماری یا ناگہانی موت کی صورت میں انہیں یکمشت رقم کی ادائیگی کرنی چاہیے ۔لیکن یہ سب باتیں تو دیوانے کا خواب ہیں ، یہاں تو غریب رپورٹر کو وقت پر پوری تنخواہ نہیں ملتی ،گریجویٹی کیا خاک ملنی ہے !ایسے میں میڈیا تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم ازکم دو کام کریں، ایک ،تمام صحافیوں کا بیمہ کروائیں تاکہ بیماری یا موت کی صورت میں اُن کے خاندان والوں کو پریشانی نہ ہو، یہ تنظیمیں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے بہت مناسب شرح کے ساتھ بیمہ کرواسکتی ہیں جس کے کم تنخواہ والے رپورٹر بھی متحمل ہو سکتےہیں ۔دوسرا، اُن تمام صحافیوں کو جو، فیلڈ رپورٹنگ کرتے ہیں ، حفاظتی تدابیر کی تربیت کروائیں ، یہ کوئی مشکل کام نہیں ، اگر یہ تنظیمیں چاہیں تو یہ کام مفت بھی ہوسکتا ہے ، بہت سے ادارے اِس کام کے لیے نہ صرف تعاون کرسکتے ہیں بلکہ ایسے صحافیوں کو وہ سامان بھی مہیا کرسکتے ہیں جو فیلڈ رپورٹنگ میں اُن کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

اب آتے ہیں اِس واقعے کے دوسرے پہلوکی طرف جس کا تعلق صحافت سے نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے عمومی غیر ذمہ دارانہ رویے سے ہے۔ہم کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر اپنانے کے سرے سے قائل ہی نہیں ۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی تو پہلے بھی معمول تھا مگر اب یہ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے، لوگ رات گئے بغیر بتی کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے سڑک کی غلط طرف سےآنے کی بھی پروا نہیں کرتے، ہیلمٹ پہننے کا تکلف نہیں کرتے، ریلوے پھاٹک کوجلدبازی میں پار کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، بچوں سے لدی ہوئی وین کسی ٹرک سے جا ٹکراتے ہیں،چلتی ہوئی بس یا ٹرین پرچڑھنے اور اترنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ تمام باتیں ہمیں بالکل نارمل لگتی ہیں حتّیٰ کہ اگر بچے ساتھ ہوں توبھی ہم یہ تمام غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کرنے سے نہیں گھبراتے۔ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنے بچوں سے پیار نہیں ہے، ہم بس یہ سمجھتے ہیں کہ جس حفاظتی اصول کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں جان جانے کا امکان ایک فیصد سے بھی کم ہےحالانکہ یہ ایک غلط فہمی ہےاور اِس کا ثبوت وہ اندوہناک حادثات ہیں جن کی خبریں ہم آئے روز سنتے ہیں۔ صدف نعیم کی موت ایسے ہی ایک حادثے کے نتیجے میں ہوئی مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کی موت کی ایف آئی آر درج نہ کی جائےیا اُس کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے۔اِس قسم کی حادثاتی موت کے بعد تمام ایس او پیز پر عمل ہونا چاہیے مگر ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہوگاکیونکہ ہم مرنے والے کو فوراً شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیتےہیں اور اُس کے پسماندگان کو صبر کی تلقین اور مرنے والے کے درجات کی بلندی کی دعا کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہےجبکہ ریاست کا فرض قانون کے مطابق عمل کرنا ہے نہ کہ مرنے والے کے جنت میں مقام کا تعین کرنا۔بد قسمتی سےصدف نعیم جیسے لوگ روز قسطوں میں قتل ہوتے ہیں ۔اگلے حادثے کا انتظار کیجیے!

تازہ ترین