• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسے میں جب عمران خان لانگ مارچ میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اسلام آباد پر لشکر کشی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف چین کے دورے پر روانہ ہوگئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت عمران خان کے لانگ مارچ کو اپنے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کررہی۔ لانگ مارچ کے آغاز پر یہ عندیہ دیا گیا تھا کہ عمران خان شیڈول کے مطابق 4 نومبر تک اسلام آباد پہنچ جائیں گے مگر اب لانگ مارچ، شارٹ مارچ میں تبدیل ہوگیا ہے جو دوپہر ایک بجے شروع ہوکر مغرب سے قبل اختتام پذیر ہوجاتا ہے اور عمران خان عوام کو سڑکوں پر چھوڑ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو شاید وہ9 نومبر تک بھی اسلام آباد نہ پہنچ پائیں۔

لانگ مارچ سے قبل عمران خان کے قریبی ساتھی فیصل واوڈا کے انکشاف کہ وہ لانگ مارچ میں موت اور لاشیں دیکھ رہے ہیں، نے عمران خان کے ’’آزادی مارچ‘‘ پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے سابق وزیرعلی امین گنڈاپور کی آڈیو لیک ،جس میں وہ کسی شخص سے اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر اسلحہ اور تربیت یافتہ مسلح افراد بھجوانے کی بات کررہے ہیں، نے فیصل واوڈا کے بیان کی تائید کی ہے جبکہ کے پی کے حکومت کے وزیر تعلیم کامران بنگش کی دھمکی کہ وہ اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں اور لانگ مارچ میں اسلحہ لے کر آئیں گے، لانگ مارچ میں خونریزی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسی صورتحال میں آنے والے دنوں میں عمران خان کے ہیجان اور غصے میں اضافہ ہورہا ہے جس کا اندازہ ان کے حالیہ بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گزشتہ کئی ماہ سے جس انقلاب کی پیش گوئی کررہے ہیں، اسلام آباد پہنچ کر وہ بیلٹ بکس یا پھر خونریزی کے ذریعے آئے گا۔ عمران خان کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت پر لشکر کشی کی منصوبہ بندی ہورہی ہے اور عمران خان ملک میں انارکی چاہتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے کے بعد خونی مارچ میں بدل جائے۔ اس بار لانگ مارچ میں عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ایک بار لوگوں کے بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہوجائیں تو وہاں سے ڈی چوک تک جانا اور دارالحکومت اسلام آباد کا گھیرائو اور لشکر کشی کرکے وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے اپنے مطالبات منواسکیں گے مگر مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے واضح الفاظ میں شہباز شریف کو عمران خان کا کوئی مطالبہ ماننے یا فیس سیونگ دینے سے منع کردیا ہے۔ نواز شریف پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی انقلاب کیلئے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کیلئے ہے۔

لانگ مارچ کے ذریعے عمران خان اسٹیبلشمنٹ پر بھی دبائو بڑھارہے ہیں کہ وہ پہلے کی طرح ان کا ساتھ دے جس کا انکشاف ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس میں سامنے آیا ہے ،جس میں انہوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ جب ملک میں فتنہ فساد کا خطرہ ہو تو ہماری طرف سے طویل خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے عمران خان پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ رات کو ہم سے ملتے ہیں اور غیر آئینی خواہشات اور مطالبات کرتے ہیں لیکن دن کی روشنی میں ہمیں غدار قرار دیتے ہیں۔ اداروں کے اعلیٰ افسران کی پریس کانفرنس نے جہاں ایک طرف عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ پر لگائے گئے الزامات کی قلعی کھول دی ہے تو دوسری طرف فوج میں موجود عمران خان کے حامیوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ عمران خان کا اصل چہرہ کیا ہے۔ عمران خان پر اس وقت دو تہائی اکثریت کا نشہ سوار ہے اور وہ عوامی مقبولیت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر اب اقتدار میں آئے تو فوج کی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ عمران خان کا اصرار ہے کہ فوج پہلے کی طرح صرف اُنہی کی حمایت کرے۔ اداروں کی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی کا خود آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج کے درمیان جو رہا سہا تعلق تھا، وہ اب ختم ہوچکا ہے۔ ارشد شریف کی موت کے بعد عمران خان نے صورتحال کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اداروں کے ہاتھوں سے صبر اور برداشت کا دامن چھوٹ گیا ہے اور پہلی بار آئی ایس آئی سربراہ جنرل ندیم اور آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل بابر فوج کا نقطہ نظر بیان کرتے نظر آئے اور انہیں اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر پریس کانفرنس کا سہارا لینا پڑا۔عمران کے فوج مخالف پروپیگنڈے پر بھارت میں جشن کی کیفیت ہے اور وہاں کے عوام عمران خان کے گن گارہے ہیں جن کا یہ کہنا ہے کہ عمران خان آپ خوش رہیں، آپ نے جو کردیا، وہ ہم نہیں کرسکتے تھے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ سن کر شرم آتی ہے۔

عمران خان کے لانگ مارچ سے صرف حکومت کو نہیں بلکہ ریاست پاکستان کو بھی خطرہ ہے اور اگر خدانخواستہ صورتحال بگڑتی ہے تو ایسی صورت میں مارشل لا یا ادارے میں تقسیم کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے۔ آج امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان کہ ’’پاکستان ایک غیر ذمہ دار ریاست ہے اور ایٹمی اثاثے منظم نہیں‘‘ کو عمران خان کے لانگ مارچ سے تقویت مل رہی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ فوج ہماری سلامتی کی ضامن ہے، اگر فوج یا ہماری ایجنسیاں کمزور ہوئیں تو اس کا نقصان ملکی سلامتی کو پہنچے گا۔

تازہ ترین