• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوری الیکشن نہ ہی مرضی کا آرمی چیف،عمران خان کو معلوم ہے۔ فساد، خون ریزی، جنگ و جد ل کی طلب یہی کچھ رقم کر رہی ہے ۔کیا دنگا فساد میں دشمن گوریلا فوج کی متوقع شرکت نے حوصلہ بڑھانا ہے؟ پاکستان ایک آئینی ریاست ،آئین کی کونسی شِق کہ عمران خان کاجنرل باجوہ سے فوری الیکشن کا مطالبہ،اُسکے لیے ملاقاتیں ، پاؤں پکڑنا، گریبان پکڑنا، بڑھکیں مارنا سب استعمال میں مگر رائیگاں جاناہے۔ قبل ازیں،22 مئی کو اعلان کیاکہ 25 مئی کو 30 لاکھ لوگ لے کر اسلام آبادپہنچوں گا ، فوری الیکشن وگرنہ غیر معینہ مدت کیلئے دھرنا دوں گا۔کیا الیکشن ملے؟ 26 مئی کو دھرنا دیے بغیر واپس کیوں گئے؟ عمران خان یوٹرن، ABOUT TURN، لیفٹ ٹرن، رائٹ ٹرن، کس وقت کیا فیصلہ کرتے ہیں،کلی اختیار عمران خان کے پاس ہے۔باجوہ صاحب آئین کے مطابق کردار ادا کرتے ہیں تو غداراور اگر غیر آئینی کام میں مددگار تو تاحیات آرمی چیف، کیسی منافقت ہے۔ جرنیلوں کوللکارنا، ڈرانا، دھمکانا، القابات سے نوازنا، چوکیدار کی تنخواہ بند کرنے کی دھمکیاں، اِسی مد میں ہیں۔ کبھی گالم گلوچ اور بہتان، کبھی اللہ اور رسول کا واسطہ اور منت ترلے،کبھی مہنگائی کے خلاف عوام کو بھڑکانا اور اب ارشد شریف کی شہادت اور جہاد کے نام پر اُکسانا،سارے جتن بیکار گئے۔ آخری حل خونی انقلاب اور اپنے حصے کے عوام کو فوج کے خلاف لاکر مارشل لا کی نوید دے ڈالی ۔

شک نہیں، اسٹیبلشمنٹ آج اپنی عقل کا ماتم اور قسمت کو کوس رہی ہو گی۔ ماننے میں حرج نہیں کہ 2014 سے اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ نے مل کر ریاست اور آئین کے خلاف جو سازش کی ، سیاست دانوں کے خلاف میڈیا اور عدالتوں کا بےجا استعمال ہو ا، غیر آئینی اقدامات نے ریاست کا بھرکس نکال دیا۔ عمران خان نے ساڑھے تین سال بذریعہ حکومت اور پچھلے سات مہینے حکومت سے باہر رہ کرجہاں ریاست کو اجاڑنے میں عملی اقدامات کئے وہاں اسٹیبلشمنٹ کو بیچ چوراہے رُسوا کرنے میں جُرات اور فراخدلی سے کام لیا۔

بارہویں صدی میں حسن بن صباح نامی شخص آیا۔پہلے اُس نے ایک مصنوعی جنت بنائی۔ ہزاروں معتقدین کو پہلے حشیش(چرس، بھنگ) کا عادی بنایا،پھرچرسیوں کو اپنی مصنوعی جنت کے نظارے دکھائے جہاں مرنے کے بعدچرسیوں نے رہنا تھا۔نشئی معتقدین کے ذریعے جرنیلوں ، سیاستدانوں ،مذہبی رہنمائوں کو قتل کرواکرختم کرنا اور خوف وہراس پیدا کر کے ایک ریاست کا قیام تھا۔ دہشت گردوں کا گروہ الحشاشین یعنی حشیش کا جتھہ کہلایا۔ مصنوعی جنت کے حصول کیلئے دہشت گردوں کا یہ گروہ کئی لوگوں کو مار کے خود کُشی کر لیتا تھا۔ انگریزی زبان کے الفاظASSASIN (قاتل) اور HASHISH (چرس)دونوں عربی کے لفظ حِشاشین(قاتل) اور حشیش (چرس) سے ہی لیے گئے ہیں۔

عمران خان سُن لو آج بارہویں صدی ہے اور نہ ہی تم حسن بن صباح ہو۔اپنا انجام بھیانک، نوشتہ دیوارجانو۔ اللّٰہ کرے عمران خان ریاست کومزید برباد کرنے میں ناکام رہے۔عمران خان کے الحشاشین ، اسلام آباد کے گردو نواح میں فتنہ فساد کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو کیا کسی دشمن ملک کے کمانڈوز مدد کو پہنچیں گے ؟کیا پاکستان موجود ہ شورش ،افراتفری کا متحمل بھی ہو پائے گا؟

عمران خان سیاست میں آئے تو حیران کیا۔ میرے لیے یہ مسئلہ فیثا غورث ہے کہ بظاہر ساری زندگی اپنے آپ کو غیر سیاسی اور سیاست کو اپنے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دیتے تھے۔ جب عمران خان کی 1992 کی قریبی دوست کرسیٹنا بیکر کی کتاب "FROM MTV TO MECCA" 2012 میں منظر عام پر آئی تو عقدہ کھلا کہ موصوف نے 1992میں کرسٹینا کو تایا،’’ورلڈ کپ نے مجھے خاطر خواہ مقبولیت دی ہے، ہسپتال مکمل ہوتے ہی میں سیاست میں آ ؤں گا‘‘۔ عمران خان1996 میں سیاست میں آئے تو کیا وجہ بتائی؟ بے نظیرحکومت میرے خیراتی کاموں میں رکاوٹ بن رہی تھی،میرے پاس سیاست میں آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا،بعدازاں ، کئی پینترے بدلے کبھی کہا انصاف کیلئے اور کبھی کرپشن کو ختم کرنے کا عزم بتایا۔ 1997 اور 2002 کے الیکشن میں اگر اعشاریہ چند فیصد ووٹ ملے ، ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ 1997 میں نواز شریف کا مقابلہ کیا،ضمانت ضبط ہوئی۔

بالآخر ماورائے آئین اقدامات ہوئے، اسٹیبلشمنٹ نے مرکز، دو صوبوں ، کشمیر ، گلگت بلتستان اور کراچی وغیرہ میں کامیابی دلوادی۔ آج اسٹیبلشمنٹ مخالفت میں عوامی پذیرائی ملی تو یہ پاکستانی تاریخ کا سبق ہے ۔عمران خان کو ذہن نشین رکھناہو گا ، جب نواز شریف کی اُکھاڑ پچھاڑ جاری تھی تو وہ اقتدار میں ہونے کے باوجود نہ صرف مقبولیت کی معراج پرتھے، دوصوبوں کشمیر، گلگت بلتستان میں حکومتیں تھیں ۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدالتوں نے کمال جادوگری سے نواز شریف کو وزیر اعظم ہائوس سے جیل پہنچایا، عمران خان تمہارا مستقبل نواز شریف سے بھی زیادہ مخدوش رہنا ہے۔

آج لانگ مارچ یا تین گھنٹے روزانہ کے دو تین جلسے ضرور، حوصلے پست نظر آرہے ہیں۔ جب بندہ بند گلی میں پھنس جائے تو گالم گلوچ ، خون خرابہ ہذیان کی کیفیت بنتی ہے۔’’فوری الیکشن یا مرضی کا آرمی چیف ‘‘دونوں نا ممکن۔تنگ آمد بجنگ آمد،عمران خان کے پاس آپشن ایک ہی کہ اسلام آباد پہنچ کرفتنہ فساد پھیلائیں۔جبکہ رانا ثناء اللہ کی کامیابی امن و امان سے منسلک ہے۔اگر رانا ثناء اللہ عمران خان کو بحفاظت اسلام آباد پہنچا کر ، بحفاظت دھرنا گراؤنڈ میں بٹھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، قیام و طعام میں ممدو معاون بنتے ہیں تو میڈل رانا صاحب آپکا ہی۔ عمران خان کا عزم صمیم یہی کہ الیکشن کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں جائوں گا۔مطلب 18 اگست 2023تک عمران خان اور لواحقین کا پڑاؤ اسلام آباد میں ، ان شاء اللّٰہ 18 اگست کو جب قافلہ راہ حق واپسی کا سفر شروع کرے گا تو’’ناکامی ‘‘اُن کا مقدر ٹھہرے گی،شرط اتنی ،عمران خان اپنی کرپشن اور چوری کے مقدمات سے بچ نکلیں،قافلہ راہ حق نے بھی جنت سے محروم رہنا ہے۔

تازہ ترین