• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں بہت سے سیاستدان آئے، ان میں سے بعض اب اس دارِفانی میں نہیں رہے اور کئی سیاستدان بحمدللہ ابھی حیات ہیں۔ ہم نے ملکی سیاست میں کئی نشیب وفراز دیکھے۔ سیاستدانوں کی سیاست دیکھی لیکن مجموعی طور پر کسی بھی موڑ پر سیاستدانوں کو سیاسی حدود سے باہر سیاست کرتے نہیں دیکھا ۔ الزامات بھی لگے لیکن وہ سیاست کی پٹڑی سے اس طرح نہیں اترے جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے ہیں۔

عمران خان نے تو سیاست کے نام پر کئی بار تمام ریڈلائینز اس طرح کراس کیں کہ جن کا کوئی سیاستدان سوچ بھی نہیں سکتا۔ نہ آئین وقانون کی پروا، نہ ریاستی اداروں کے تقدس کا خیال، نہ سیاسی مخالفین کے بارے میں پارلیمانی گفتگو کا احساس۔ یہ بالکل انوکھی سیاست ہے۔ اس طرز گفتگو اور طرز عمل کو کسی طور نہ تو سیاسی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی سیاستدان سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اب یہ قوم کو سوچنا چاہئے کہ ایسا طرز عمل رکھنے والوں کو سیاستدان مانا جائے یا نہیں؟

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ خود کو سیاستدان کہلوانے والا ’’سیاسی لیڈر ‘‘ ملک کے سب سے منظم اور باعزت ادارے کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے اور یہ سب کچھ ذاتی و سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا جارہا ہے۔

فوج کی اعلیٰ قیادت کو تضحیک آمیز ناموں سے پکارنا، ان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنا اور دھمکی آمیز گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عمل نے سیاسی ماحول کو کس طرح کشیدہ اور آلودہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد کی طرف مارچ افراتفری پھیلانے اور امن وامان کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش لگتا ہے۔

 عمران خان کی گفتگو سے تو یہی نظر آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض ’’رہنمائوں‘‘ کی طرف سے مذکورہ مارچ میں اسلحہ بردار لوگوں کو لانے کے برسر عام اعلانات اس امرکے غماز ہیں کہ یہ لوگ ملک کو فساد، خون خرابے اور عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد کے نواح سے کچھ ایسے ہی لوگوں کو حراست میں لینے کی اطلاعات بھی ہیں ،جن کو اسی مقصد کے لئے پہلے سے یہاں پہنچا کر خفیہ طریقے سے رکھا گیاتھا۔

اس طرز عمل اور گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کوئی سیاسی اصول نہیں ہیں وہ صبح جو بات کرتے ہیں دوپہر کواس سے منکر ہوجاتے ہیں۔ان کی تقاریر میں مقصد یہ نظر آتا ہے کہ ان کے فرضی، غیر منطقی اور لاحاصل غیر حقیقی بیانیے کو بیچا جاسکے۔ عمران خان نے صرف اندرونی بلکہ بین الاقوامی تعلقات کو بھی بطور وزیراعظم نقصان پہنچایا تھا۔

 اب بھی امریکہ کے خلاف ان کی بیان بازی ملک کو یکساں طور پر نقصان پہنچا رہی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کو خراب کرنا ملک کو خارجہ طور پر دنیا کی نظروں میں کمزور اور الگ تھلگ کرنے کی کوشش ہے۔ ایسی ہی کوششیں پاکستان کے خلاف بھارت کرتا رہتا ہے۔ اس لئے عمران خان کو ایسی گفتگو اور طرز عمل سے گریز کرناچاہئے جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ملک کوان حرکتوں کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ اس لئے اب ایسی باتوں سے گریز کرناچاہئے۔

آئی ایس آئی پاکستان کے دفاع کی فرنٹ لائن ہے۔ اس عظیم ریاستی ادارے کی ملک کے لئے بیش بہا خدمات ہیں،جن کی پوری قوم معترف ہے، قوم کا اپنے قابلِ فخر ادارے پر مکمل اعتماد ہے۔ اس ادارے پر کسی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام قطعی طور پر بے بنیاد، لغواور جھوٹ پر مبنی ہے۔ آخر اتنے منظم اور عظیم ادارے، جس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے، ایک صحافی کوقتل کرنے سے کیا فائدہ ہوسکتا تھا یا ادارے کو ارشد شریف سے کیا خطرہ تھا؟ ڈی جی آئی ایس آئی نے ان تمام باتوں کی مفصل انداز میں وضاحت کردی ہے۔

ذرائع کے مطابق ادارہ خود بھی کینیا کے انٹیلی جنس ادارے سے اس بارے میں رابطے میں ہے تاکہ حقائق کی تہہ تک پہنچا جاسکے ۔ اس کے علاوہ کینیا بھیجی گئی تحقیقاتی ٹیم بھی وہاں مصروف عمل ہے اور ذرائع کے مطابق کافی معلومات مل بھی چکی ہیں۔ سفارتی سطح پر بھی اس قتل کے معمہ کوحل کرنے کیلئےکام جاری ہے۔

عمران خان ’’ سیاستدان ‘‘ ہونے کے ناطے کوئی بھی بیانیہ بنا یا موقف اپنا سکتے ہیں لیکن فوج اور آئی ایس آئی کا طریقہ اور رولز ایسے نہیں ہیں کیونکہ یہ دونوں ادارے مفروضوں اور من گھڑت بیانیوں یا افسانوں پر نہیں بلکہ حقائق پرکام کرنے کے پابند ہیں۔ نہ ہی یہ دونوں ادارے ہرورز جھوٹ پھیلانے کا جواب دینے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ تحقیقات تو ہوتی ہیں اور سچ اور جھوٹ سامنے آجاتا ہے، پھر لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سیاست کایہ طریقۂ کار معاشرے کو تقسیم اور بگاڑ کی طرف لے جارہا ہے۔ فوجی قیادت سے ملاقاتیں کرکے غیر آئینی مطالبات کرنا کون سی سیاست ہے؟ فوجی قیادت نے فوج کے غیر سیاسی کردار کا فیصلہ کیا ہے اور کوئی لالچ یا دبائو اس عزم کو متزلزل نہیں کرسکتا۔

 آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے تقریر واحتجاج قابل احترام ہے لیکن ملک کو غیر مستحکم کرنے، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے،امن وامان کو خراب کرنے اور ریاستی اداروں کوکمزور کرنے کی کسی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔

تازہ ترین