• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کے لہو سے کنٹینر روشنی کی علامت بن گیا ہے ۔ٹانگ میں گولی کھا کر بھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ چہرہ شدت ِ جذبات سے تمتا رہا تھا۔ آنکھوں میں انوکھی چمک تھی۔ مٹھی بند کرکے لہرا رہا تھا۔ اتنے مضبوط ارادوں اور اتنے لازوال حوصلوں سے بھرا لیڈر پاکستانی قوم کی قسمت میں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی نہیں آیا۔ اللّٰہ تعالی اس کا حامی و ناصر ہو۔

پاکستان حقیقی تبدیلی کے موڑ پر کھڑا ہے۔ پتھرائے ہوئے وقت حرکت دکھائی دے رہی ہے۔ زمین و آسماں کی گردشیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ موسموں کی بل کھاتی ہوئی ندیاں روانیوں سے بھر گئی ہیں۔مردہ بصارتوں میں زندگی دکھائی دینے لگی ہے ۔ سماعتیں جاگ پڑی ہیں ۔آوازوں میں تمکنت آ گئی ہے ۔ خوابوں سے تعبیروں کے چہرے ابل رہے ہیں ۔ اڑتی ہوئی راکھ سے سبزہ و گل کے پھوٹنے کے امکانات روشن تر ہیں ۔دورتک پھیلی ہوئی قبروں پر انصاف کی امید کے دئیے جل اٹھے ہیں ۔چٹانوں پر زندگی کےنقشِ پا ابھرنے لگے ہیں۔ کل تک انسانی تاریخ کے انتہائی بد قسمت موڑ پرتھا،جہاں گھور اندھیرے آنکھوں میں چبھ رہے تھے ۔تاریکیاں دل و دماغ تک اتر رہی تھیں۔ سوچتا تھا کہ امن ،سلامتی اور عافیت کا نگر کون سا ہے۔ مگر اب وہ صورت حال نہیں رہی ۔خوف کا عالم ٹوٹ چکا ہے ۔عمران خان کے لہو کے قطرے جو کنٹینر پر گرے ‘ان میں سے ہر قطرہ آفتاب کی طرح طلوع ہورہا ہے۔

اس واقعہ سے پہلے میں اپنی ایک پرانی نظم میں گم تھا ۔ کل کے بعد یہ کیفیت ختم ہو گئی ہے ۔ نظم سن لیجئے جس میں میں رہ رہا تھا،

‎کسی ذبح خانے کے آس پاس کہیں زندگانی مقیم ہے

مجھے آئے اپنی ہر ایک شے سے لہو کی بو

بڑی تیز تیز۔بڑی متلی خیز

کئی پرفیوم کی بوتلیں۔میں چھڑک چکا ہوں لباس پر

اسی گرم خون کی مشک پر اسی سرد ماس کی باس پر

کسی ذبح خانے کے آس پاس

کئی بار دھویا ہے ہاتھ کو

کئی بار مانجھافلیٹ کی میں نے ایک ایک پلیٹ کو

مجھے آئے ذائقہ خون کا

مجھے آئے ایک سڑاند سی

مجھے کچا ماس دکھائی دے

کہیں ہاتھ پاؤں سڑے ہوئے

کہیں گولیوں کے گلاب سے

نئی چھاتیوں میں گڑے ہوئے

کہیں گردِناف کے پارچے مرے ناشتے میں پڑے ہوئے

کسی ذبح خانے کے آس پاس

یہ کیفیت اس وقت شروع ہوئی تھی جب انسانوں کو ٹرینوں کے باہر سے دروازے بند کر کے جلتے ہوئے ریل گاڑی کے ڈبوں کے اندرسوختہ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا ۔تو کہیں وزیرستانوں میں سروں کی فٹ بال میچ کھیلے گئے تھے ۔جب اسکولوں میں قتل گاہیں قائم کی گئی تھیں ، جب مزاروں کو لہو سے نہلادیا گیا تھا ۔وہ سچ جس کے بارے میں بلھے شاہ نے کہا تھا کہ ’’سچ آکھیاں بھانبھڑ مچداے ‘‘۔وہ بول دیاگیا۔ آگ کے آلائو روشن ہو چکے ہیں ۔میرا عمران خان کے بارے میں کسی زمانے میں خیال تھا کہ عمران خان پاکستان کا وہ برانڈہے جس نے گلوبل مارکیٹ میں پاکستان کی عزت کوچار چاند لگادئیے ہیں مگر بات برانڈ سے آگے بڑھ گئی ہے ۔ اب عمران خان ہی پاکستان ہے ۔ جس طرح جنرل ڈیگال نے کہا تھا کہ سارتر تو فرانس ہے اسی طرح مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہورہی کہ عمرا ن خان تو پاکستان ہے ۔ گولی عمران خان کو نہیں لگی ،پاکستان کو لگی ہے اور اس کا اندازہ اس وقت سے لے کر اِس وقت تک جو کچھ ملک میں ہو چکا ہے ،اس سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے ۔ ارشد شریف کی شہادت سے شروع ہونے والا قصہ لمحہ لمحہ آگے بڑ ھ رہا ہے ۔ مجھے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ گولی مارنے والے کون تھے ۔ کتنے لوگ تھے ۔ وہ کیا بیان رے رہے ہیں ؟ ان باتوں سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ لیاقت علی خان کے قاتل کا آج تک پتہ نہیں چلا ، جنرل ضیا الحق اور بے نظیر بھٹو کی قبریں چیخ چیخ کر اپنے قاتلوں کے نام بتاتی ہیں مگر کوئی سننے والا ہی نہیں ۔ پہلی بار قوم نے ایسی آوازیں سننی شروع کی ہیں ۔ پہلی بار قوم کو احساس ہوا کہ اب یہ کام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ قاتل امریکہ یا بھارت ہو یا خود کوئی پاکستانی ہو ۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا ہے ۔یہ فیصلہ میرا نہیں پوری پاکستانی قوم کا فیصلہ ہے ۔مجھے لگتا ہے کہ کسی وقت بھی عمران خان دو تہائی اکثریت کے ساتھ پاکستان کی باگ ڈور سنبھال سکتے ہیں اور اس حوالے سے بھی ایک نئے پاکستان کا آغاز ہو سکتا ہے۔ جب کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا جائے گا جب کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہیں لگائی جا سکے گی۔

بے شک یہ سوال بڑا اہم ہے کہ لانگ مارچ کے دوران عمران خان کی سیکورٹی کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا ۔انھیں بطور سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ آخر کس قسم کی سیکورٹی فراہم کی گئی تھی مگر میں سمجھتا ہوں سیکورٹی کم نہیں تھی ۔ عمران خان کے ارد گر دموجود ان کا ایک ایک ورکر سپاہی تھا۔ انہی کی قربانیوں کی وجہ سے ان کی زندگی محفوظ رہی ۔ اس وقت ہر پاکستانی عمران خان کا محافظ ہے ۔حملے کی ایف آئی آر ابھی تک درج نہیں ہوئی مگر میرا کالم شائع ہونے تک ضرور درج ہو جائے گی۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایف آئی آر نئے پاکستان کی بنیادی تحریر ہوگی۔

تازہ ترین