• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برازیل کے عوام نے برسوں بعد ایک مرتبہ پھر اپنا ووٹ معیشت کی بہتری اور مُلکی اقتصادی سمت کی درستی کے لیے استعمال کیا۔صابق صدر لولا ڈی سلوا، جنہیں کرپشن کے ایک جھوٹے اور متنازع مقدمے میں نااہل قرار دے دیا گیا تھا، تیسری مرتبہ برازیل کے صدر منتخب کر لیے گئے ہیں۔ یاد رہے، وہ پہلے لیڈر ہیں، جنہیں یہ کام یابی ملی، اُن کے مقابلے میں پاپولسٹ (جمہوریت کے حامی، عوامیت پسند) لیڈر اور موجودہ صدر، بولسونارو کو شکست ہوئی ہے۔ ڈی سلوا نے پہلے رائونڈ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے،لیکن چوں کہ کوئی امیداوار واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکا تھا، اس لیے دوسرا رائونڈ ہوا، جس میں ڈی سلوا پچاس فی صد کی اکثریتی حد عبور کر کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ برازیل کے 37ویں صدر ہیں۔

یاد رہے،صدر ڈی سلوا کو 2017ء میں ایک متنازع مقدمے میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ اُن پر یہ الزامات بولسونارو کی طرف سے عائد کیے گئے تھے، جو ایک پاپولسٹ لیڈر ہیں۔ یاد رہے، بولسونارو کو جنوبی افریقا کا ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انہیں نہ تو اپنی زبان پر قابو ہے اور نہ ہی بیانات پر، لیکن اُن کے عوام پسند نعروں سے متاثر ہوکر برازیلی عوام نے انہیں اقتدار سونپ دیاتھا، جس کا خمیازہ انہوں نے بعد میں بھگتاکہ برازیل، جو دنیا کی اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں اپنا مقام بنا چُکا تھا، اقتصادی بدحالی کی گرفت میں آگیا۔ معاملہ یہ ہے کہ بولسونارو کو صرف میڈیا سے ڈیل کرنا آتا ہے۔ 

وگرنہ نہ تو اُن کاکوئی معاشی وژن ہے، نہ گورنینس کا کوئی تجربہ اور نہ ہی قومی یا ترقیاتی سوچ۔ انہوں نے معاشرے کو محض اپنے بیانیے سے ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے سیاسی طور پرتقسیم کردیا، اسی لیے صدر ڈی سلوا نے اپنی وِکٹری اسپیچ میں کہا کہ ’’ہمارا سب سے اہم کام معاشرے کی تقسیم ختم کرنا، عوام میں ہم آہنگی پیدا کرنا اور معیشت کو واپس پٹری پر لانا ہے۔‘‘دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈی سلوا کے مقدمے کے وفاقی جج، سرجیو مورو کو بولسونارو حکومت میں وزیرِ انصاف بنا دیا گیا۔ بہرحال، جب مُلک کی اقتصادی حالت بُری طرح متاثر ہوئی، تو عوام نے بھی ہوش کے ناخن لے لیے۔

مارچ 2021 ء میں جب صدرڈی سلوا کی تمام سزائیں کالعدم قرار دے دی گئیں اور سزا دینے والے جج کو متعصّب قرار دیا گیا، تو لوگوں کی سمجھ آیا کہ بولسونارو کے بیانیے سےجو بحران پیدا ہوا، اس نے برازیل کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایاہے۔وہ مُلک، جو دنیا میں ترقّی کی مثال بننے جارہا تھا،عوام کے ایک غلط انتخاب، جھوٹے بیانیے، بے بنیاد الزامات کی بدولت آٹھ برس سے معاشی بحران، قیمتوں میں اضافے،خشک سالی، پیداوار میں کمی اور بےروز گاری کی شدید ترین مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ڈی سلوا بائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں، وہ دھات کی صنعت میں محنت مزدوری بھی کرتے رہے ہیں، جب کہ بولسونارو فوج کے سابق کپتان ہیں۔

موجودہ صدر،بولسونارو
موجودہ صدر،بولسونارو 

برازیل جنوبی افریقا کا بڑا مُلک ہے،جس کی آبادی اکیس کروڑ سے زاید ہے، یہاں کی آبادی میں ایک بڑی تعداد تارکین کی ہے۔ یہ 26 ریاستوں پر مشتمل جنوبی امریکا اور لاطینی امریکا میں سب سے بڑا مُلک ہے۔ برازیل کے دارلحکومت، براسیلیا کا شمار دنیا کے خُوب صُورت شہروں میں ہوتا ہے، جب کہ ریو ڈی جینرو اور سائو پولو شہر عالمی شہرت کے حامل ہیں۔چلی اور ایکواڈور کے علاوہ سارے جنوبی امریکی ممالک سے اس کا بارڈر ملتا ہے۔ ویسے تو یہاں کے جنگلات مشہور ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں سے ان کی وسیع پیمانے پر کٹائی اور ان سے حاصل شُدہ لکڑی کے کمرشل مقاصد میں استعمال کے سبب موسمیاتی تبدیلی کے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

گوکہ غلط پالیسیز کی وجہ سے برازیل کی معیشت بُری طرح متاثر ہوئی، لیکن اب بھی اس کا شمار اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے۔برازیل یہ جی۔20 اور بریکس بینک جیسی عالمی تنظیموں کا رُکن بھی ہے۔ یہاں صدارتی نظام رائج ہے اور پارلیمان کا صدر کے الیکشن میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا کہ صدر، عوام کے ووٹ سے براہِ راست منتخب ہوتا ہے۔ 

ہاں، البتہ ایک شخص، تین مرتبہ سے زائد اس عُہدے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ڈیلما روذف نے2010ء کے بعد صدارتی عُہدہ سنبھالا، جن کا تعلق ڈی سلوا ہی کی پارٹی سے تھا، لیکن 2014ء کے بعد یہاں سیاسی افراتفری کا دَور شروع ہوگیا۔ڈیلما کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مجرم قرار پائیں، پھر انتخابات تک عارضی طور پر نیا صدر آیا، بعدازاں الیکشن ہوئے اوربولسونارو ،جو کہ2014 ء سے پاپولسٹ طرز کی سیاست کر رہے ہیں، اقتدار میں آگئے۔

دوسری جانب، ڈ ی سلوا کی فتح کے بعد امریکا،رُوس چین، یورپی ممالک اور دنیا بھر سے مبارک باد کے پیغامات آنے شروع ہوگئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر اُن کی جیت تسلیم کر لی گئی ہے۔ یاد رہے،برازیل کی ترقّی میں سب سے بڑا حصّہ، اُس اقتصادی نظریے کا ہے، جس پر صدر ڈی سلوا نے عمل درآمد کروایا۔ وہ 2003ء میں پہلی مرتبہ برازیل کے صدر منتخب ہوئے تھے، جیسا کہ ہم نے بتایا برازیل میں صدارتی نظام رائج ہے اور صدر عوام کے ووٹس سے براہِ راست منتخب ہوتا ہے، تو ڈی سلوا 2010 ء تک مُلک کے صدر رہے، پھر اُنہی کی پارٹی کی ایک خاتون سیاست دان، جنہیں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی، صدر منتخب ہوگئیں۔ 

اُن کا آخری دَور بڑا بحرانی تھا، اس وقت بولسونارو کا کرپشن بیانیہ عروج پر تھا،جس پر اُنہیں آئینی کورٹ نے برطرف کرکے عبوری حکومت قائم کردی۔جب کہ بولسونارو اسی دَور میں ملکی سیاسی اُفق پر مقبول ہونا شروع ہوئے تھے۔بولسونارو کو برازیل ہی نہیں، جنوبی امریکا میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ ہو بہو اُن کی نقل کرتے ہیں۔ ٹرمپ جیسی زبان کا استعمال، بداخلاقی اور بغیر ثبوت الزامات لگانا اُن کے لیے عام بات ہے۔

غالباً یہ تمام ترقّی پذیر ممالک کا المیہ ہے کہ حصولِ آزادی کے بعد اُن کی قیادت اپنی کوئی اقتصادی سمت مقرر ہی نہیں کرپاتی،اُن کو آزادی کی جدّوجہد اور مُلک چلانے میں فرق کرنا سمجھ ہی نہیں آتا۔آزادی کے فوراً بعد وہ کوئی سیاسی نظریہ طے نہیں کر پاتے ، جس سے نقصان صرف اور صرف عوام کا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی نغموں پر جُھومنے والی قوم کا جوش اُس وقت سرد پڑنے لگتا ہے، جب چاروں طرف سے غربت و افلاس، بے روزگاری اور اقتصادی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔چین ہی کی مثال لےلیں، 1979ء تک وہاں انقلاب کا ذکر تھا۔ پھرڈینگ ژیاؤ پنگ نے آکر چینی عوام کے سامنے قومی اقتصادی نظریہ پیش کیا۔ 

معیشت کو ہر مسئلے پر فوقیت دی اور طے کیا کہ آئندہ پچاس سال میں چین ایک بڑی معاشی طاقت بن کے اُبھرے گا۔ تب سے اس مُلک نے ترقّی کرنا شروع کی اور آج اس کا مقام سب کے سامنے ہے۔ لیکن برازیل اتنا خوش قسمت نہیں تھا، صدر ڈی سلوا کے دَور کی اقتصادی ترقّی اگلے سالوں میں جھوٹے نعروں کی نذر ہوگئی۔بولسونارو نے اپنے جھوٹے بیانیے کو بدترین انداز سے کیش کروایا، وہ اپنے مخالفین کو سرِ عام گالیوں سے نوازتے، اُن کے طرح طرح کے نام رکھتے، اُن کا کہنا تھا کہ بس وہی سب کچھ ہیں اور دل چسپ امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس نعرے بازی سے عوام کو بہت حد تک بےوقوف بنانے میں کام یاب بھی رہے۔ 

منتخب صدر،لولا ڈی سلوا
منتخب صدر،لولا ڈی سلوا

دوسری جانب صدر ڈی سلوا کو، جو مُلک کے مقبول ترین لیڈراور تیسری مرتبہ مسندِ صدارت پر فائز ہونے والے پہلے سیاست دان ہیں، ایک متنازع مقدمے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں 2017ء میں ایک لگژری اپارٹمنٹ بطور رشوت قبول کرنے پر سزا سنائی گئی تھی اور بعدازاں انہوں نے580 دن کی جیل کاٹی۔ڈی سلوا نے2018 ء میں بھی انتخابات میں حصّہ لینے کی کوشش کی، لیکن برازیل کے کلین سلیٹ قانون کے تحت انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔اُس کے بعد انہوں نے سپریم فیڈرل کورٹ میں اپیل دائر کی اور نومبر 2019 ء میں اس کورٹ نے فیصلہ دیا کہ زیرِ التوا اپیلز اور سزا ناجائز،غیر قانونی ہیں۔نتیجتاً ڈی سلوا کی تمام سزائیں کالعدم قرار پائیں اور اور جج ایڈمسن نے فیصلہ سُنا دیا کہ ’’یہ مقدمہ ایک ایسی کورٹ میں چلایا گیا، جس کے پاس اس کا اختیار ہی نہیں تھا۔‘‘بعدازاں، 2021ء میں سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی۔

صدر منتخب ہونے کے بعد جب ڈی سلوا نے شہر کی مرکزی شاہ راہ پر لوگوں سے خطاب کیا، تو عوام کا ایک سمندر انہیں دیکھنے کے لیےموجود تھا۔وہ ’’ڈی سلوا واپس آگیا‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔نو منتخب صدر نے اس موقعے پر کہاکہ ’’یہ بہت مشکل مہم تھی، میرا مقابلہ بولسونارو سے نہیں،بلکہ ظلم سے تھا اور یہ جنگ جمہوریت کی تھی۔‘‘بلاشبہ، بولسونارو کے مقابلے میں سابق صدر، ڈی سلو اکی فتح برازیل کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔

دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلہ بڑا ہی سخت تھا، جس میں ڈی سلوا نے صرف ایک فی صد سے برتری حاصل کی۔کہا جارہا ہے کہ برازیل کے لیے یہ ایک تاریخی لمحہ ہے کہ بیس سال پہلے ڈی سلوا اقتصادی ترقّی کے وعدے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے، لیکن جب وہ مُلک کو لانچ کرنے کے مرحلے پر پہنچے، تو انہیں قید میں ڈال کر نااہل کردیا گیا، اور درمیان کے قریباً آٹھ سال میں مُلک کو سخت نقصان پہنچا۔

یاد رہے، یہ بھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب چین نے برازیل کو بریکس بینک کا رکن بنایا تھا اور دنیا کے تمام مالیاتی ادارے اسے اُبھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کر رہے تھے کہ اتنی بڑی آبادی کے باوجود اس کی ترقّی کی رفتار حیرت انگیز تھی۔ خیر، برازیل کے نو منتخب صدر، ڈی سلوا یکم جنوری 2023ء کو صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے، تاہم ملکی تقسیم کے خاتمے کے لیے انہیں مخالف جماعتوں سے فوری طور پر بات چیت کرنا ہو گی۔صدر ڈی سلوا میں سیاسی لچک موجود ہے اور وہ اپنے سیاسی حریفوں کو رام کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، بلکہ درحقیقت یہی ان کی سیاسی کام یابی کی اصل وجہ ہے۔

اسی لیے انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ ’’ہم اور نہیں لڑنا چاہتے۔یکم جنوری سے برازیل دو نہیں رہے گا،ہم ایک ہیں۔‘‘ بولسونارو اگر بغیر رکاوٹ کے اقتدار منتقل کردیتے ہیں، تو بھی ان کی جماعت کے رُکن بڑی تعداد میں کانگریس اور علاقائی اداروں میں موجود ہوں گے اور ڈی سلوا کو انتہائی دائیں بازو کے قانون سازوں کے ساتھ مل کر قانون سازی کرنی پڑے گی۔ برازیل اب دوبارہ ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہونے میں کتنا عرصہ لے گا، ابھی یہ کہنا مشکل ہے، لیکن یوں لگتا ہے کہ عوام نے بولسونارو کے دَور سے اس امر کا بخوبی تجربہ کر لیا ہے کہ قوم پرستی کے نعروں، مخالفین کے خلاف گالم گلوچ یا کرپشن کی فرضی کہانیاں گھڑ کر کچھ حاصل نہیں کیاجاسکتا۔

انتہائی دائیں بازو کے پاپولسٹ یا قوم پرست لیڈر دنیا کے بہت سے ممالک میں کام یاب ہو رہے ہیں۔ امریکا میں اس کی مثال ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔یک پارٹی حکومت، چین، روس وغیرہ میں تو کوئی انوکھی بات نہیں کہ یہ اُن کے نظام کا حصّہ ہے، لیکن ملٹی پارٹیز جمہوریتوں میں یہ نظام بہت سے چیلنجز لے کر آتا ہے۔ اس لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا کا خطّہ خوش قسمت ہے کہ یہاں جمہوریت بھی برقرار ہے اور ترقّی کی رفتار بھی قابلِ رشک ہے۔ سنگاپور، تھائی لینڈ میں تھاکسن شنواترا اور لی کوان یو اور مہاتیر محمّد اس قسم کی قوم پرستی کی اچھی مثالیں ہیں۔

تاہم، ان کا فوکس معیشت پر رہا اور اسی لیے نہ صرف ان کے ممالک نے غیر معمولی ترقی کے ساتھ معیارِ زندگی بلند کر نے اور غربت ختم کرنے کی مثالیں قائم کیں، بلکہ جمہوریت کو بھی پٹری سے اُترنے نہیں دیا۔ بھارت اتنی بڑی آبادی کا مُلک ہے اور سیاسی جماعتوں کی تعداد کا بھی کوئی شمار نہیں، تاہم اس نے بھی تعمیر و ترقّی اور معیشت ہی پر فوکس کر رکھا ہے۔ آج بھارت کی تمام تر خامیوں کے باوجود اس کی ترقّی کی رفتار قابلِ رشک ہے۔ تاہم، اُن ترقّی پذیر ممالک میں، جہاں سیاسی قیادت اور عوام معیشت کے وژن اور ملکی ترقّی کے لانگ ٹرم اہداف پر متفق نہیں ہو سکے، شدید مشکلات ہی اُن کا مقدر بنی ہیں۔

ان میں کم آبادی والے ممالک، جیسے عراق، شام اور لیبیا بھی ہیں اور بڑی آبادی کی ریاستیں، جیسے پاکستان بھی شامل ہیں۔جہاں سیاسی رہنما قوم کو ہمہ وقت آزادی کی جدّوجہد کے مُوڈ ہی میں رکھتے ہیں، حالاں کہ عوام، اداروں اور سیاسی جماعتوں کے لیے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آج دنیا تعمیر و ترقّی کی منازل طے کر رہی ہے اور ان انقلابی کیفیات سے ہمیں صرف نقصان ہی پہنچے گا۔ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اس ضمن میں برازیل کے موجودہ انتخابی نتائج عوام کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں کہ کیسے جمہوری ریاستوں میں معیشت کو فوقیت دی جاتی ہے۔اور یہ صرف جمہوریت ہی کے لیے نہیں، خود عوام کے مستقبل کے لیے بھی ازحد ضروری ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید