• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصافِ کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں لانگ مارچ کا ساتواں روز تھا۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھاکہ اچانک فائرنگ نے نہ صرف لانگ مارچ تتر بتر کردیا بلکہ ملک کے متلاطم سیاسی سمندر میں مزید تلاطم پیدا ہوگیا۔

 عمران خان کا لانگ مارچ ان اطلاعات کے باوجود شروع ہوا کہ اس پر دہشت گردوں کے حملوں کا خطرہ ہے لیکن تحریک انصاف کی ٹیم نے اپنے کپتان کی حفاظت کےلئے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ سیکورٹی الرٹ ہونے کے باوجود بلٹ پروف شیشے کا بندوبست نہ کیا گیا اور نہ ہی اس احتیاط کو روا رکھا گیا جو اس سطح کے لیڈر کی حفاظت کے لئے کی جانی چاہئے بلاشبہ ایک مقبول لیڈر اور عوام کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہے تاہم اس کی زندگی کی حفاظت اس کے ساتھیوں اور ٹیم کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جس سے پہلو تہی برتی گئی۔

 پاکستان کے سیاسی افق پر پہلے ہی شکوک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے تھے اور اب تو طرح طرح کی افواہوں نے پورے ملک کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو محفوظ رکھا اور حملہ آور کی گولی عمران خان کی ٹانگ کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔ انہیں زخمی حالت میں شوکت خانم ہسپتال منتقل کیا گیا

 جہاں سے انہوں نے ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان اور وزیر داخلہ اور ایک سینئر فوجی افسر پر قاتلانہ حملے کا الزام لگایا جس سے شدید ہیجان پیدا ہوگیا۔

یاد رہے کہ عمران خان کی اقتدار سے معزولی کے بعد سے ملکی اسٹیبلشمنٹ ان کے نشانے پر ہے۔

 ایوان اقتدار سے ان کی رخصتی اگرچہ مروجہ جمہوری طریقوں کے عین مطابق ہوئی تھی لیکن انہوں نے کبھی اسے تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ ہی اسے سازش کا شاخسانہ قرار دیا۔کبھی امریکی خط کا تذکرہ ہوا۔کبھی اندرونی سازش کا ذکر ہوا۔

اس پس منظر میں عمران خان پر حملے کی حساسیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔وہ بلاشبہ پاکستان کے ایک مقبول لیڈر ہیں۔خدا نخواستہ اگر عمران خان کو کچھ ہوجاتا تو ملک کی سالمیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا۔

2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک میں جو افراتفری کا ماحول بنا تھا اسے کون بھول سکتا ہے؟ وہ تو آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا اور حالات پر قابو پایا۔

عمران خان پر حملے کے بعد ملک کے بڑے شہروں میں اگرچہ اس طرح کے بڑے احتجاجی مظاہرے نہیں ہوئے جس طرح تحریک انصاف ماضی میں کرتی رہی ہے تاہم ، اس کے باوجود پورے ملک میں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر عمران خان سے یکجہتی کا اظہار کیا۔پاکستان کے تمام سیاسی رہنماؤں نے عمران خان پر حملے کی مذمت کی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے یہ اعلان کیا کہ سپریم کورٹ کو ایک اعلیٰ اختیاراتی فل کورٹ کمیشن بنانا چاہئے جو عمران خان پر حملے کی مکمل تحقیقات کرے۔

اللہ والا چوک وزیر آباد میں ہونے والے حملے کو چار دن گزر چکے ہیں لیکن تا حال نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی ملزموں کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ سننے کو مل سکا ہے۔ ہر روز نئی افواہیں سامنے آرہی ہیں جو حالات کی سنگینی میں اضافہ کر رہی ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی عمران خان کی خواہش کے مطابق ایف آئی آر درج کروانے سے گریزاں ہیں۔اسی دباؤ کے باعث آئی جی پنجاب مزید کام کرنے سے معذرت کر چکے ہیں جب کہ چیف سیکریٹری پہلے ہی رخصت پر ہیں۔

ان حالات میں پنجاب کی انتظامی مشینری تقریبا ًمفلوج ہو چکی ہے،کارِ سرکار جو پہلے ہی سست روی سے چل رہے تھے، وہ انجماد کا شکار ہوچکے ہیں۔اوپر سے ملک کے معاشی حالات بھی درست سمت میں گامزن نہیں ہیں۔وزیراعظم کے دورۂ سعودی عرب اور چین کے بعد جو بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے ،انکے اثرات ظاہر نہیں ہو رہے۔

 زرِمبادلہ کے ذخائر کی حالت اور بھی تشویشناک ہے۔ چین اور سعودی عرب کی طرف سے دی گئی رقم زرمبادلہ کے ذخائر سے منہا کر دی جائےتو اسٹیٹ بنک میں 40 کروڑ ڈالر رہ جاتے ہیں اور آئندہ برس کے لئے کم از کم 33 ارب ڈالرز درکار ہوں گے جس کےلئے اب تک چین اور سعودی عرب سے محض 13ارب ڈالرز کی ادائیگی کے وعدے کئے گئے ہیں۔

حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت پر پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح 30فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کردی ہے،جس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے کا خدشہ ہے۔

عام آدمی کے لئے زندہ رہنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔لیکن سیاسی اشرافیہ اقتدار کے کھیل میں کچھ اس طرح مگن ہے کہ وہ نقارۂ خلق سننے سے یا تو گریزاں ہیں یا پھر تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہی ہے۔

ان تشویشناک حالات میں عمران خان نے لانگ مارچ دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہےاور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ راولپنڈی پہنچنے سے پہلے پہلے وہ خود لانگ مارچ کی قیادت سنبھال لیں گےاور اسلام آباد میں دھرنا بھی دیں گے۔

عمران خان پر حملے کے بعد لانگ مارچ کی حساسیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔تمام محبِ وطن حلقے اس صورتِ حال پر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔تاہم اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے۔انہیں سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لئے جلد بازی کے بجاے صبر سے کام لینا چاہئے۔ ہمارے ادارے ہمارے محافظ ہیں۔

عمران خان کو ان پر تنقید کرتے ہوئے یہ بات ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ اسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں اور آئندہ بھی انہی کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا۔اپنے معاملات کو ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن'‘‘پر نہ لے جائیں۔

جمہوری منزل کے حصول کیلئے غیر جمہوری رویے پر زور نہ دیں۔سیاسی درجۂ حرارت معمول پر لائیں۔میں حکومتی زعما سے گزارش کروں گا کہ وہ اشتعال انگیز پریس کانفرنسریں کرنا بند کریں۔

عمران خان کے رویے پر اشتعال میں آنے کے بجاے صبر کا مظاہرہ کریں۔عوام اس وقت شدید مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ اگرعوام کو سڑکوں پر نہ لا سکا تو مہنگائی کا طوفان ایک نہ ختم ہونے والے احتجاج کی بنیاد بن سکتا ہے۔

تازہ ترین