• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کا کیا حال ہے پوچھو خبر

آسماں کیوں لال ہے پوچھو خبر

گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی باز گشت فضا میں گونج رہی ہے، خون میں لتھڑے ہوئے لبادے نظر میں جم سے گئے ہیں، ارشد شریف اور صدف نعیم کے نام تو سب کو یاد ہیں، بہت سے بے نام لاشے بھی ہم نے خاک و خون میں غلطاں دیکھے ہیں، کوئی کنٹینر سے گر کر مر گیا اور کوئی کنٹینر کے نیچے آ کر، پھر آخر یہ لال رنگ کنٹینرکی سواریوں تک بھی پہنچ گیا، یہ تو کرم ہوا کہ کوئی قومی سانحہ نہیں ہوا، ورنہ آپ ہم کیا کر لیتے، وہی جو ہم نے بے نظیر کی شہادت پر کیا تھا، قومی نفسیات میں ایک گاڑھی لال لکیر کا اضافہ کر لیتے، کچھ دن سوگ مناتے اور پھر لڑکھڑاتے ہوئے اپنے بے سمت سفر پر روانہ ہو جاتے۔ بہرحال، شکر ہے کہ بچت ہو گئی۔ساری قوم نے متحد ہو کر اس واقعہ کی مذمت کی ، مگر یہ اتحاد تقریباً دو گھنٹے برقرار رہ سکا، اور پھر وہی تقسیم چنگھاڑتی ہوئی لوٹ آئی۔یہ سب ڈراما ہے، ایک گولی لگی، دو تین یا چار؟ ایک ٹانگ میں یا دونوں ٹانگوں میں؟ کوئی گولی نہیں لگی، گولی کے ٹکڑے لگے ہیں، عمران خان جان دے دے گا مگر شوکت خانم اسپتال کے علاوہ کہیں سے بلڈ ٹیسٹ نہیں کرائے گا، یعنی ’’میرے کمرے کا کیا بیاں کہ یہاں...خون تھوکا گیا شرارت میں‘‘۔

اس واقعہ میں سب سے زیادہ ناقدری اس شخص کی ہوئی ہے جسے پستول سمیت فائرنگ کرتے ہوئے گرفتارکیا گیا، بالخصوص خان صاحب تو اسے رتی برابر اہمیت دینے پر تیار نہیں ہیں، بلکہ ایک طرح سے اس شخص کی گرفتاری پر پی ٹی آئی کے دوست بے مزہ نظر آتے ہیں۔ ماضی میں ہم سب کو یہی شکایت رہی ہے کہ ایسے حملوں میں حملہ آور پکڑا نہیں جاتا ، یا منصوبہ ساز قاتل کو بھی موقعے پر ہلاک کر دیتے تھے (جیسے لیاقت علی خان کے قاتل اکبر خان کو موقعے پر گولی مار دی گئی تھی) لیکن اس حملے کا ملزم اگر پکڑا ہی گیا ہے تو ابھی تک مضروب گروہ کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام نظر آ تا ہے، غالباً عمران خان گرفتار شخص کو اپنے بیانیے کی راہ میں رکاوٹ تصور کر رہے ہیں۔ خان صاحب تو چاہتے ہیں کہ اپنے سب ’دشمنوں‘ کو اسی ایک مقدمے میں پھنسا دیں ، کیا سویلین اور کیا باوردی، ایک ہی وار سے سب کو ٹھکانے لگا دیں۔ خان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ’تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ، آپ تو قتلِ عام کر رہے ہیں‘۔اگر پولیس اس طرح بنا ثبوت مملکت کے قد آور لوگوں پر مقدمات قائم کرتی تو آپ پر ایک رات میں پاکستان کے طول و عرض میں درجنوں ایف آئی آرز کٹ چکی ہوتیں۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ گرفتار شخص ’طوطا‘ ہے، یعنی رٹا رٹایا بیان دے رہا ہے تو اس کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ اسے عمران خان کے وکیل عدالتوں میں ’میاں مٹھو‘ ثابت کریں۔اس نوع کی پچھلی وارداتوں میں تو اکثر ہمارے ہاتھ خالی ہوتے تھے، اس بار ایک سرا تو ہے، سو غنیمت ہے۔

ایک اور بات بھی ذہن میں کھٹک رہی تھی، ہم بڑے دن سے سن رہے تھے، عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے، تو پھر کیا بنا اس ریڈ لائن کا؟ کراس ہو گئی ریڈ لائن، تو پھر کیا ہوا؟ چند سو لوگ باہر نکل آئے، حساب برابر ہو گیا؟ اس سے پہلے یہ بھی کان میں پڑا تھاکہ ارشد شریف ہماری ریڈ لائن ہے۔ کیا بنا اس ریڈ لائن کا؟ بے دردی سے مٹا دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی بیٹی بھی کسی کی ریڈ لائن تھے، کیا ہوا ان ریڈ لائنز کا؟ بات یہ ہے کہ قبائلی سطح کی دشمنیوں میں کوئی ریڈ لائن نہیں ہوتی،بٹے ہوئے لوگ کمزور ہوتے ہیں اور کمزوروں کی کوئی ریڈ لائن نہیں ہوتی، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کا لیڈر ریڈ لائن ہو اور آپ کا مخالف لیڈر کچی پنسل سے کھنچی ہوئی دھندلی سی لکیر۔ آپ کے مخالفوں پر حملہ ہو تو آپ اسے عوامی جذبات کا اظہار قرار دیں، اور اپنی دفعہ سرخ لکیر کا نعرہ لگا دیں۔ ہم نے اس ملک میں کسی کی ’ریڈ لائن‘ مٹنے پر مٹھائیاں بٹتے بھی دیکھا ہے۔ یاد رکھئے، معاشرہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی مشترک ریڈ لائنز کھینچ سکتا ہے، جس میں آپ کا لیڈر بھی شامل ہو اور آپ کے مخالفین کا بھی۔ لیکن عمران خان کو شاید ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی،’ ’علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جائوں... وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے‘‘۔

سیاسی منظر نامے کو چھوڑیے، یہ تو غالباً ہے ہی اس لئے کہ ہم ظواہر میں کھو جائیں، اصل معاملہ کچھ اور ہے’’کہ فضائے شہر ہے پُر فتن، ہیں عجیب سائے سے گامزن‘‘، اب یہ کوئی راز نہیں ہے کہ یہ جو پردے پر آپ دھینگا مشتی دیکھ رہے ہیں یہ علت نہیں معلول ہے، پسِ پردہ ایک مہا یُدھ برپا ہے جس میں لندھور اور عادی کرب ایک دوسرے کی ناک خاک آلودہ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، یہ واقعی وہ جنگ ہے جس میں سب جائز قرار دیا جاتا ہے، اور یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، بلکہ اندیشہ ہے کہ ابھی اس میں خون ریزی بڑھے گی، یہ تماشا آخری حد تک جائے گا، کیوںکہ دست آزما قوتیں اسے ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ کا کھیل سمجھ کر کھیل رہی ہیں۔اس کھیل کے انجام سے ڈر لگتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سب ہار جائیں ، یعنی

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

میں بھی برباد ہو گیا تو بھی

پس نوشت: جون بھائی کی بیسیویں برسی ہے سو انہیں یاد کرنے کے بہانے اس کالم میں سب اشعار انہی کے ہیں۔

تازہ ترین