انتہائی دھماکہ خیز ماحول میں سیاسی تشدد جس درجے تک پہنچ چکا ہے ، اس کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔گزشتہ جمعرات کو ایک مجرمانہ سازش کے تحت عمران خان کی جان لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ معجزانہ طور پر بچ نکلے ۔ صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کے حریف سیاسی میدان میں جمہوری انداز سے مقابلہ کرنے کی بجائے اب اُنھیں جسمانی طور پر ختم کرنے پر تل گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گھنائونی سازش کے پس پردہ کارفرما قوتیں اور ذہنیت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر اتنی بڑی قوت بن چکے ہیں کہ صرف غیر سیاسی ہتھکنڈوں کی قینچی ہی ان کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پر کاٹ سکتی ہے۔
قتل کی اس کوشش کی وجہ سادہ ہے۔ ہر شہر اور قصبے سے گزرنے والے مارچ میں شرکا کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اسلام آباد میں عوام کا ایک سمندر جمع ہوجائے گا۔ یہ شہر پہلے ہی ایک سفاک اور بدنما قلعہ بندی کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہر سڑک کو کنٹینروں سے بند کردیا گیا ہے اور یوں ہر شاہراہ ہی ٹریفک کی دلدل بن چکی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ عوام کے سمندر کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ یہ رکاوٹیں خس وخاشاک ثابت ہوں گی۔ چنانچہ اس شخص پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جو ان کے لئے چیلنج بنا ہوا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ ان کا مقابلہ ایک اور نواز شریف سے ہے جو لندن بھاگ جائے گا، یا زرداری سے ہے، جو دبئی میں پناہ لے لے گا، یا فضل الرحمٰن سے ہے جو چھپ جائے گا، یہ لوگ اپنے مدمقابل کو سیاسی میدان سے نکال باہر کرنے کے سو ا اور کچھ نہیں سوچ سکتے ۔
لیکن خان کا خمیر مختلف مٹی سے بنا ہے۔ وہ ایسے ظالمانہ اور آمرانہ ہتھکنڈوں ،جمہوری اقدار اور اصولوں کی پامالی اور قتل و غارت گری کے سامنے کبھی سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ سچ پوچھیں تو ان مجرموں کی حکمرانی کے ساتھ ان کا کوئی تقابل بنتا ہی نہیں۔ وہ صرف وہ کارڈ کھیلیں گے جو ان کے اقدار کی عکاسی کرتے ہیں جن کے لئے وہ کھڑے ہیں، جن کی وہ قدر کرتے ہیں: عوام کا خون چوسنے والی مافیاز کا خاتمہ اور پاکستان کو ایک پرامن سماجی فلاحی ریاست میں تبدیل کرنا جو مساوات اور انصاف کے نظریات کی پاسداری کرتی ہو۔ چنانچہ مارچ روکنا پڑا۔ قاتلوں کو خان کی جان لینے کا ہدف دے دیا گیا۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ گولیوں کی بوچھاڑ سے عمران خان بچ نکلے ۔
اس کے بعد اس پورے واقعہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش قتل کی سازش سے بھی زیادہ خوفناک تھی۔ مبینہ طور پر ذمہ دار شخص کا اعترافی بیان ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں قومی ٹیلی ویژن چینل نے نشر کیا جسے پھر دوسرے چینلز نے اٹھالیا۔ اس سے یہ تاثر اجاگر کرنا مقصود تھا کہ مجرم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور یہ باب اب بند ہو چکا۔ یہ ایک سنگین جرم کو چھپانے کی انتہائی گھٹیا کوشش تھی۔ ضروری تھا کہ اس کی تحقیقات ملک کے بہترین لوگ کریں کیونکہ اس نے ریاست اوراس کے شہریوں کی قسمت کو دائو پر لگا دیا تھا۔ آخر یہ صرف ایک فرد پر حملہ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے انسان پر حملہ تھا جو پوری قوم کے خوابوں اور امنگوں کی عکاسی کرتا ہے۔ قاتلانہ حملے کے بعد پورے ملک میں ہونے والے زبردست مظاہروں سے اس کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔
حکمرانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خان کو معزول کرنے کے بعد ایسے پہاڑسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سیاسی عمل سے باہر ہونے کے بجائے ان کے قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ آج وہ پوری قوم کو تحریک دے رہے ہیں کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے مقصد کی حمایت کرے تاکہ ایک ایسی حکومت قائم کی جاسکے جو ان کا اعتماد رکھتی ہو۔ غیر ملکی آشیرباد سے مقامی طور پر تیار کی گئی سازش کے ذریعے معزول کرنے کے بعدوہ عمران خان کی حقیقی طاقت کا اندازہ نہ لگاسکے۔ اس کے بعد اُنھوں نے خان کے ساتھیوں سے اعترافی بیانات حاصل کرنے کےلئے بدترین طریقے استعمال کئے ہیں۔ انھیں ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے سے لے کر جعلی مقدمات قائم کرنے ، اور حراست میں تشدد کا نشانہ بنانے سے لے کر جعلی ویڈیوز اور آڈیو ٹیپ بنا کر ان کی تذلیل تک کی گئی ہے۔لیکن مقبولیت میں کمی کے بجائے ان سفاکانہ طریقوں نے پاکستان میں اور بیرونی ممالک میں ان کا قد مزید بلند کیا ہے، جیسا کہ قاتلانہ حملے کے بعد ہونے والے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
موصول ہونے والی انٹیلی جنس معلومات کی بنا پر عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سمیت قتل کی منصوبہ بندی کرنے والے تین مشتبہ افراد کے نام لئے۔ مروجہ قوانین اور طریق کارکے مطابق ان ناموں کو فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کا حصہ بنایا جانا چاہئے تھا۔ شدید دباؤ کی وجہ سے پولیس حکام نے ایف آئی آر میں یہ نام شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ عمران خان اور تحریک انصاف نے ایف آئی آر کو قبول کرنے اور اس کے تحت کارروائی آگے بڑھانے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے بجائے قانونی ٹیموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو عدالت عظمیٰ میں لے جائیں تاکہ قابل اعتبار ایف آئی آر درج کی جا سکے اور قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لئے کارروائی شروع کی جا سکے۔
عمران خان نے فقید المثال مزاحمت دکھاتے ہوئےاسی مقام سے دوبارہ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں ان پر حملہ ہوا تھا۔ پنجاب بھر کے مختلف مقامات سے دستے مرکزی مارچ میں شامل ہوکرراولپنڈی پہنچیں گے۔ عمران خان زخم بھرنے پر اس میں شامل ہوں گے اور وہاں سے اس کی قیادت کریں گے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے عمران خان کے مطالبے کو ماننے کے امکانات معدوم ہیں۔ اس لئے خطرہ ہے کہ ہم تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی ماحول مزید خراب ہوا تو تشدد کی نوبت بھی خارج ازامکان نہیں۔ یہ مارچ تحلیل نہیں ہوا بلکہ اس کا دوسرا وار پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور جان دار ہوگا۔
عمران خان نے توہین کے وار سہہ لئے ۔ ان پر تنقید و تشنیع کے زہریلے تیر چلے ۔ اب وہ قاتل کی گولیوں کا بھی سامنا کر چکے ۔ ان تمام ہتھکنڈوں نے ان کے ان مافیاز کو ختم کرنے کے عزم کو مزید جلا بخشی ہے ۔ اب جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو کرنے دیں۔