• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیں گزشتہ تین ماہ سے دماغی ٹیومر کا عارضہ تھا،اب الحمدللہ شفا ہے،اس دوران بدحواسی کی عجیب وغریب کیفیت سے دوچار رہا،اسی عالم میں ہم پاکستانی بادشاہ سے ملے،، تادیر ملاقات، خوف کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ حالانکہ حکمرانوں سے ملاقات نغمہ پرور نہیں ہوتی، دراصل میں نے ایک وضاحت کی خاطر اپنے گائوں سے دارالحکومت کیلئے قصدِ سفر باندھا تھا، حاکم کی خاتون سیکرٹری نے استفسار کیا کہ حاکم کو گزشتہ کچھ دنوں سے رات میں سونے کیلئے بس دو تین گھنٹے ہی میسر ہوتے ہیں آپ کا مسئلہ جو بھی ہو، حل کر دیا جائے گا۔ میںنِراسادہ پختون ، اپنی بات پراڑا رہا۔ اس دوران حاکم کے کمرے سے کچھ ملاح باہر آئے اور کچھ ہی ثانیوں بعد کچھ لوگ جو مزدور معلوم ہوتے تھے اندر چلے گئے، مزدوروں کے بعد کچھ سپاہیوں کا اور ان کے بعد عینک لگائے ہوئے ایک شخص کا نمبر آیا جو قیمتی سوٹ پہنے ہوئے تھے، آخر کار قیمتی سوٹ والا آدمی بھی کمرے سے باہر نکل آیا، میں نے دروازے کو ذرا سا کھولا اور اپنے تھیلے کے ساتھ ہی اندر داخل ہو گیا، اوسط قد اور گٹھے ہوئے جسم کا ایک آدمی جو پرانا سوٹ پہنے ہوئے تھا،بڑی دفتری میز کے قریب ہی ایک چھوٹی سی میز کے پاس بیٹھا سپاہیوں والے ڈونگے سے کچھ کھا رہا تھا۔کیا واقعی یہ پاکستانی بادشاہ ہے؟ اچھا تو یہ آپ ہیں، بادشاہ نے جیسے مجھے پہچانتے ہوئے کہا ، آیئے، آیئے،کیا یہ مجھے جانتے ہیں، اچانک میرے سامنے چند ساعت قبل کی ایک فلم چلنے لگی، جب ایک دبلی پتلی، زرد چہرے کی لڑکی بڑے سا سیاہ ٹائپ رائٹر کو اٹھائے باہر کاریڈور میں جوں توں گزر رہی تھی اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ بوجھ اس کے بس کا نہیں، دولحیم شحیم صاحبان بے چاری کی اس پریشانی کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے کہ اسی اثنا میں حاکم کا وہاں سے گزر ہوا اور مجھ پرسرسری سی نگاہ ڈالنے کے بعد ان صاحبان سے کہا کہ نوجوان کامریڈو، یہ مناسب نہیں اور پھر لڑکی سے ٹائپ رائٹر لے لیا، اگرچہ لڑکی بھی بدحواس ہو گئی تھی اور نوجوانوں نے بھی ٹائپ رائٹر کی طرف فوری ہاتھ بڑھا دیئے تھے، میں نے غالباًصحیح سنا تھا کہ بادشاہ سلامت شیو کی دکان پر بھی اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ قانون کی نظر حاکم و رعایا میں فرق کیونکر ہو سکتا ہے ؟ ، آپ کا نام کیا ہے کامریڈ ؟ پاخوموف … یگورپیتروچ، کامریڈ اس نام کا مطلب کیا ہے ؟ ہم پختونوں کے اکثر ناموں کے مطلب کا ہمیں بھی پتہ نہیں ہوتا ! اس پر اُن کی ایسے بھولے پن سےہنسی چھوٹ گئی، جو دوسروں کو بھی ہنسائے، میرا بھی قہقہہ بے قابو ہو گیا، بادشاہ کے آنسو نکل آئے، میں نے سوچا وہ انسان جو سرمایہ دار دنیا سے نفرت کے معاملے میں بےلوچ اور سخت کٹر ہو، اس قدر سادہ ہے!میں نے غیر ارادی طور پر ڈونگے کی طرف سر کی جنبش سے اشارہ کرتے ہوئے کہا کاشا … مکھن کے بغیر ہاں!معاف کیجئے گا، کھائیں گے ؟ اور ڈونگا میری طرف کھسکا دیا، کھایئے نا ! میں نے شکریہ کے ساتھ نا کردیا، اچھا تو مجھے بتایئے کسان کیا محسوس کر رہے ہیں، بادشاہ نے کچھ روز قبل ہی مملکت کی ساری زمین بے زمین ہاریوں میں تقسیم کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا ۔ میں نے سوال کیا کہ دیہات میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ جاگیرداروں و سرمایہ داروں سے ساری زمین لے لی جائے گی کہ نہیں … ساری کی ساری، چپہ چپہ، بادشاہ نے قطعیت سے کہا،میں نے کہا کہ زمیندار اور مذہبی عناصر کے قبضے میں جو چیزیں صدیوں سے چلی آرہی ہیں اس سے کیا وہ بڑے آسانی کے ساتھ دستبردار ہو جائیں گے !؟ ہر گز نہیں، جب اقتدار ہی آپ عوام کا ہے، آ ٰپ بھی تو اقتدار میں ہیں، اس پر میں نے اپنا جائزہ لیا، چھال کے جوتے … کوٹ کا دامن گھسا کٹا ہوا … کمر کے اوپر بندھی ہوئی رسی …اور پھر میں نے اپنے آپ سے کہا ’’میں اقتدار میں ہوں ‘‘ ، بھوک کے مارے میرا برا حال تھا، میں نے اپنے تھیلے کو احتیاط کے ساتھ کھولا، اس کے اندر سے کپڑے میں لپٹا نمک لگا سوکھا ہوا گوشت، روٹی کا بڑا سا ٹکڑا، پڑیا میں رکھا ہوا نمک اور ایک پیاز نکالی اور کہا کہ جناب بادشاہ ، مہربانی کر کے کھا لیجئے، گائوں کے لوگ مجھے معاف نہیں کریں گے کہ میں گوشت کھا رہا تھا اور آپ بغیر مکھن کے کاشا…

وائے حسرت کہ اسی لمحےبادشاہ منظر سے غائب ہوگئے،اوہ! تو یہ بدحواسی تھی،جس میں ،میں ایک کمیونسٹ حکمران لادیمیرلینن سےجاملا تھا۔

تازہ ترین