• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کے پیالے میں یونہی طوفان بپا ہے۔ عمران کا لانگ مارچ ہو جس میں وہ اپنی ٹانگ تڑوا بیٹھے ہیں یا پھر وزیراعظم کی لندن یاترا، ہونا وہی ہے جو پیا چاہیں گے۔ جو حکومت چیف جسٹس کا اپنی مرضی کے جج لگانے کے دبائو کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی، اُس میں کیا سکت ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کا سوچ بھی سکے۔ جو فہرست دی جائے گی، اُس میں اداراتی منشا صاف ہوگی۔ اندریں حالات انتخاب سنیارٹی کے معیار پر ہی ہوگا جو اداراتی ہم آہنگی برقرار رکھ سکے۔ رہی نئے انتخابات کی تاریخ، اُس پر اب خلیج ایسی بڑی بھی نہیں جو پاٹی نہ جا سکے۔ لیکن ’’یک صفحہ‘‘ ہونے کی خواہش بس حسرت ہی رہے گی کہ سیاست کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے سوائے ہر جانب سے رسوائی کے علاوہ ملا بھی کیا۔ جنرل باجوہ مقررہ تاریخ پہ ریٹائر ہو جائیں گے اور نیا سپہ سالار کیوں اپنے پیشرو کی روایت کا بوجھ اُٹھائے گا۔ اداراتی مفاد اِسی میں ہے کہ سیاست سیاستدانوں ہی کا کھیل رہے۔ ایسے میں معاشی تجزیہ کار یوسف نذر صاحب نے ایک اچھوتا شوشہ چھوڑا ہے اور اُس کے لئے وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان اور آرمی چیف کی توجہ چاہی ہے۔ا سٹیفن ڈیکرون کی کتاب ’’ترقی پر جوا‘‘(Gambling on Development) سے اُنہوں نے یہ راز پایا ہے کہ بعض ملک ترقی کی راہ پہ چل نکلے جبکہ بہت سوں کی گاڑی کیوں چھوٹ گئی۔ اسٹیفن ڈیکرون کے خیال میں اس کا تعلق پالیسی سے ہے نہ اداراتی امتیاز سے اور نہ ترقی کےلئے کوئی چاندی کا سکہ ہے بلکہ کامیابی کا راز اس میں ہے کہ اُمرا کے مابین’’مفادات کے سودے‘‘ کی بنیاد پر ترقی اور نمو پر اتفاق ہو جس کے لئے تین شرائط ضروری ہیں۔ امن و استحکام کے لئےحکمران اشرافیہ میں پائیدار لین دین ہو۔ سمجھ دار ریاست کیا کرے اور کیا کر سکتی ہے کے درمیان توازن پیدا کرے۔ اور غلطیوں سے سیکھنے اور اُن کی تصحیح کی صلاحیت۔ سوال تو یوسف نذر صاحب نے سیاسی معیشت کا اُٹھایا ہے اور حکمراںطبقوں میں ناچاکی اور سمجھوتہ نہ ہونے کو پاکستانی افلاس کی وجہ قرار دیا ہے لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ دست نگری کی معیشت عالمی سرمائے کی گماشتگی اور کرایہ داری و مفت خوری پہ پہلے ہی سے کامل اتفاق ہے، جھگڑا سارا کم ہوتے ہوئے مالِ غنیم میں بٹوارے کا ہے تو پھر ترقی کا جوا کھیلے تو کون؟

سیاست و صحافت کی کنگالی دیکھئے کہ اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ زیرِ بحث ہے اُس پر وزیرِ ماحولیات شیری رحمان اور وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو کے سوا کسی کی نظر نہیں۔ مصر میں ہونے والی COP27 عالمی ماحولیاتی کانفرنس کو مسئلہ درپیش ہے کہ کس طرح انسان کے ہاتھوں مادرِ زمین اور اس کا نامیاتی ماحول تباہی کی جانب گامزن ہے اور ماحولیاتی تباہی کے پہیے کو کس طرح موڑا جائے کہ قدرت اور انسان میں جو نامیاتی رشتہ پامال ہوا، اسے بحال کیا جا سکے۔ لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک قدرت اور اس کے ایکالوجیکل توازن کے ٹوٹنے (Metabolic Rupture) کی بنیادی وجہ کو تلاش نہ کیا جائے۔ کرۂ ارض کے سائنسدان اور ماہرینِ ارضیات اس نکتے پر متفق ہیں کہ انسانی تاریخ میں یہ ارضیاتی دور انسانی ہاتھوں سے ارضیاتی تباہی کا زمانہ ہے (Anthropocene)، لیکن جس تاریخی سماجیات کے ہاتھوں قدرت کا استحصال ہوا ہے، اُسے ایڈریس کئے بِنا قدرت بچنے سے رہی۔ ماحولیاتی تباہی کا مسئلہ پیدا ہی صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کے عروج سے ہوا ہے۔ جدید عالمی سرمایہ داری نوآبادیاتی استحصال اور منڈیوں کے لئے جنگوں نے ماحولیاتی تباہی کو جنم دیا ہے۔ جب تک ایک فیصد استحصالی قدرت اور انسانی محنت کا استحصال کرتے رہیں گے، ماحولیاتی قیامت آ کے رہے گی۔ ہمارے ملک میں تو ماحولیاتی آلودگی کے ہاتھوں درجۂ حرارت میں اضافے، بے انتہا بارشوں اور پھر خوفناک سیلابوں نے اس مسئلے کو ہمارے سامنے ایک وجودی مسئلے کے طور پر اُجاگر کر دیا ہے۔ اب تک نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے اوپر ہے اور اُجڑی بستیوں کو آباد کرنے کے لئے ذرائع نہیں ہیں۔ فوری بحالی اور تعمیر کے لئے 16 ارب ڈالرز درکار ہیں جس کےلئے شیری رحمان شرم الشیخ میں سینہ سپر ہیں۔ وہ ماحولیاتی نقصان اور تباہی کے مسئلے کو ایجنڈے میں لانے میں تو کامیاب ہوئی ہیں، لیکن جنوب کے ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک پہ اس کے تباہ کُن اثرات کے ازالے کی قیمت چکانے پہ مائل نظر نہیں آرہے۔ ورلڈبینک کی حالیہ کنٹری کلائمیٹ اینڈ ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق اگلے آٹھ برس میں پاکستان کو ماحولیاتی تباہی سے بچنے کیلئے 346 ارب ڈالرز درکار ہوں گے جب کہ صرف 48 ارب ڈالرز مہیا ہو سکیں گے جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں۔ 152ارب ڈالرز تو فقط خود قدرتی آفات کے سامنے کھڑا رہنے اور نئے ماحولیاتی قالب میں ڈھالنے کے لئے درکار ہوں گےجب کہ 196 ارب ڈالرز کاربن سے مکتی حاصل کرنے کے لئے چاہئے ہوں گے۔ یہ سب اگرنہیں ہوتا تو پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی (GDP) ، 2050 تک 20 فیصد کم ہو جائے گی جب کہ آبادی اور انسانی ضروریات کے تقاضے بہت بڑھ چکے ہوں گے۔

ایسے حالات میں بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ حکومت شریعت کورٹ کے ربا کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کرے گی اور آئندہ 5 برس میں اس کا مکمل خاتمہ کر دے گی۔ ربا ایک ایسی معاشی برائی تھی جس کے ہاتھوں لوگ بہت عاجز تھے، اس لئے اسے حرام قرار دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سادہ اشیا کا تبادلہ ہوتا تھا اور ابھی کرنسی کاروبار کا بنیادی آلہ نہیں تھی۔ تجارتی سرمایہ بڑا سادہ لین دین تھا اور ابھی وہ مالیاتی سرمایہ نہیں بنا تھا۔ مالیاتی سرمایہ صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ داری کی اعلیٰ سطح کے طور پر ایک پیداواری قوت کے طور پر سامنے آیا۔ اب ساری سرمایہ کاری مالیاتی سرمائے کے ہاتھوں میں ہے اور یہ مفت خور معیشت کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی نوعیت ہی مختلف ہے۔ سرمایہ داری کا سارا نظام منافع خوری پہ منحصر ہے اور سود اس کا ایک جزوِ لاینفک ہے۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ شرح سود کم از کم ہو جو ترقی یافتہ دُنیا میں صفر تک رہی ہے۔ پاکستان کی دست نگر معیشت عالمی سرمایہ داری کا حصہ ہے، سرمایہ داری اور عالمی معیشت سے تعلق قطع کئےبغیر آپ سود کو ختم ہی نہیں کر سکتے۔ فقہا اگر سرمایہ داری کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کے بغل بچے سود کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، جو غیرسودی کاروبار کا تجربہ پاکستان میں کیا گیا ہے، وہ سود کے دھندے کو دوسرے عنوانات سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ دین کے معاملے میں منافقت کیوں؟ بہتر ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرے!

تازہ ترین