• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوپ - 27: ’’ کلائمیٹ چینج کانفرنس‘‘ کتنی اہم ... !!

اس مرتبہ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ پر عالمی کانفرنس مصر کے ساحلی شہر، شرم الشیخ میں منعقدہوئی۔ گزشتہ سالوں سے گلوبل وارمنگ نے جو رنگ دکھائے ہیں، اس سے شاید ہی کوئی مُلک بچا ہو کہ اس کے سبب انسان کی توقعات سے زیادہ تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں،جو عوام اور حکومتوں کے لیے ایک نئی آزمائش ہیں۔یورپ، جہاں گرمی کا تصوّر بھی نہ تھا، نہ صرف شدید گرمی کی لپیٹ میں رہا، بلکہ موسمِ سرما کی طوالت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔برطانیہ جیسے مُلک میں درجۂ حرارت چالیس ڈگری سے بلند ہوا، جس کی وجہ سے حکومت کو کئی بار ہیٹ ویو الرٹ بھی جاری کرنا پڑا، تو دوسری جانب سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات میں باقاعدہ شدید سردی کی لہر آئی۔

رواں برس کے لیے بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ نومبر کے اختتام اور دسمبر کے آغاز میں سعودی عرب میں شدید سردی پڑے گی۔ اب صحراؤں میں سردیوں کی شدید لہر اور برف باری سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کی بڑی دلیل اور کیا ہوگی، مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک صُورتِ حال بارشوں اور سمندری طوفان کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ امریکا جیسے ترقّی یافتہ مُلک کے انتہائی جدید شہر نیویارک کو سمندری طوفان نے اس بُری طرح نقصان پہنچایا کہ وہاں کا نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔

ذرا سوچیں کہ اگر نیویارک جیسا جدید شہر موسمیاتی تبدیلی کے وار سے نہ بچ سکا، تو پھر پاکستان کس کھاتے میں آتا ہے۔اس سال مُلک میں غیر معمولی بارشوں اور سیلاب سے جو تباہی ہوئی، وہ ناقابلِ بیان ہے۔اسی طرح سالِ رواں کے آغاز میں مَری میں جس نوعیت اور شدّت کی برف باری ہوئی، اس سے بھی بڑی تعداد میں جانوں کا زیاں ہوا۔ حالاں کہ گزشتہ کئی برس سے مَری میں بس علامتی طور ہی پر برف باری ہو رہی تھی۔

ویسے تو موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کی تباہ کاریوں کا ذکر گزشتہ بیس، تیس سالوں سے ہو رہا ہے، لیکن اس سےنبردآزما ہونے کی پہلی سنجیدہ کوشش ’’کلائمیٹ چینج کانفرنس، پیرس‘‘ تھی، جس میں دنیا بَھر کے نمایندگان نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ کرۂ ارض کا درجۂ حرارت کسی بھی صُورت بے قابو نہیں ہونے دیں گے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ کوپ۔27 (Conference Of The Parties )اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں وزیراعظم پاکستان،شہباز شریف سمیت 200 ممالک کے سربراہان اور نمایندوں نے شرکت کی۔

یاد رہے، یہ کانفرنس اقوامِ متّحدہ منعقد کرواتا ہے اور کانفرنس کے موقعے پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس کا کہنا تھا’’یا تو دنیا موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام میں تعاون کرے یا پھر مکمل تباہی سے دوچار ہونے کے لیے تیار ہوجائے کہ دنیا کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اب یہ ثابت ہوچُکا ہے کہ اگر زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل رکھنا ہے، تو اس کا درجۂ حرارت ایک حدمیں رکھنا ہوگا اور یہ حد1.5 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔‘‘ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کئی برسوں کے مقابلے میں آج زمین کے درجۂ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوچکا ہےاوریہ اُس کاربن کے اخراج کی وجہ سے ہوا، جو صنعتی ترقّی کی وجہ سے زمین سے فضا تک پہنچتاہے۔

اب2030 ء تک کاربن گیسز کا اخراج کنٹرول کرکے اسے 45 فی صد تک کم کرنا ہوگا، تب ہی اسے 2050ء تک صفر پر لایا جاسکے گا کہ جسے ’’نیٹ زیرو‘‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ انسانیت کو آج تک جو چیلنجز درپیش رہے، یہ ان میں سب بڑا چیلنج ہے اور اس سے مقابلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے موجودہ طرزِ زندگی یک سر بدلنا ہوگا۔ انرجی سیکٹر اس کاربن کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، جسے گرین ہاؤس گیس اخراج کہا جاتا ہے کہ اس کا تین چوتھائی اسی شعبے سے ہوتا ہے۔

اس سیکٹر میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے کہ تب ہی موسمیاتی تبدیلی کا عمل روکا جاسکتاہےاوراس کا حل یہ ہے کہ گرین انرجی کے ذرایع بڑھائے جائیں۔یاد رہے، اس وقت کوئلے،گیس اور تیل سے توانائی حاصل کی جاتی ہے اور اسی سے زندگی رواں دواں،کارخانوں کا پہیہ چل رہا ہے۔ یہی موجودہ معیارِ زندگی کا سبب بھی ہے، جسے ترک کرنا آسان نہیں،کیوں کہ پھر اس کی جگہ انرجی کے متبادل ذرایع جیسے ہوا، سولر انرجی وغیرہ کو لانا ہوگا اور اُن ہی سےپیداور کے لیے بڑے بڑے پلانٹس لگانےہوں گے، اتنے بڑے کہ جن سے ہر شعبۂ زندگی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’کیا اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہو رہی ہے؟‘‘ بالکل،70 ممالک، بشمول امریکا چین اور یورپی یونین نے، جو اس کاربن اخراج کے بڑے ذمّےداران ہیں، یہ عزم کیا ہے کہ وہ اس اخراج میں 76 فی صد تک کمی لائیں گے۔

اس کے علاوہ 1200 بڑی کمپنیز نے ’’نیٹ زیرو‘‘ کو اپنا فوکس بنالیا ہے۔ 1000 شہروں نے بھی اس ہدف کو حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور یہ سب حوصلہ افزا باتیں ہیں، لیکن دَرحقیقت اس کا نتیجہ ان کے عمل سے سامنے آئے گا، جب کہ اس امر کا دوسرا پہلو اتنا تاب ناک نہیں کہ جن 193 ممالک نے اہداف تک پہنچنے کا وعدہ کیا ہے، وہ اپنے طرزِ عمل میں خاصے سُست نظر آتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ یہ معاملہ ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں، باوجودیہ کہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی متحمّل نہیں ہوسکتی۔

اقوامِ متّحدہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وہ ممالک، خاص طور پر جو کاربن کے اخراج کے زیادہ ذمّے دار ہیں، اپنی قومی ترجیحات تبدیل کریں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور اس کی باقاعدہ مانیٹرنگ کریں،وگرنہ کسی بھی مُلک میں وہ صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے، جو اس سال پاکستان میں ہوئی۔یہ ضرور ہے کہ جن ممالک کا انفرا ا سٹرکچر مضبوط ہے، وہ اس قسم کی تباہی سے بہتر طور پر نبردآزما ہوسکتے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں، لیکن کب تک…جیسے جیسے گرمی بڑھتی جائے گی، گلیشیئرز پگھلیں گے،پوری دنیا کے ساحلی ممالک اس تباہ کاری کی زد میں آجائیں گے۔

پھر یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ زیادہ تر ممالک سمندروں کے ساحلوں ہی پر آباد ہیں، کیوں کہ پانی کے ساتھ رہنا ان کی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔آج بھی دنیا کی تجارت کا بڑا حصّہ سمندر کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔اب مشکل یہ ہے کہ کاربن کا زیادہ تر اخراج (تقریباً پچاس فی صد سات ممالک سے ہوتا ہے، جن میں چین،امریکا،یورپی یونین، انڈونیشیا، روس اور برازیل شامل ہیں، جب کہ جی۔20 ممالک دنیا کی پچھتّر فی صد گرین ہاؤسز گیس کے اخراج کے ذمّے دار ہیں۔

سال2030 ء اور2050ء نیٹ زیرو ،یعنی کاربن کے اخراج کے خاتمے کے اہم سنگ میل ہیں۔2015 ء کا’’پیرس معاہدہ‘‘ وہ اہم دستاویز ہے، جس میں دنیاکے تمام ممالک نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ وہ کسی بھی صُورت زمین کا درجۂ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہیں دیں گے۔گلاس گو پیکٹ میں یہ بات بڑی وضاحت سے بتادی گئی تھی کہ ممالک کو اپنے کاربن اخراج کی صُورت کے پلان کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے اور 2022 ءمیں اس پر عمل درآمد کی پیش رفت سے آگاہ کرنا ہوگا، لیکن ابھی تک صرف24 ممالک ہی نے یہ پلان پیش کیا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس حوالے سے سنجیدگی کا فقدان اور قومی ترجیحات میں یہ موضوع کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ 

اس ضمن میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے شرم الشیخ کانفرنس میں کہا کہ ’’پاکستان کا حصّہ تو کاربن کے اخراج میں ایک فی صد بھی نہیں، لیکن اسے ایسی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، جس سے ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر اور تیس ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔اب بعداز سیلاب نتائج میں بڑی تعداد میں لوگ بیماریوں سے دوچار ہیں، جس کے تدارک کے لیےدنیا کو آگے آناچاہیے۔ اقوام متّحدہ کے سیکریٹری جنرل نے دنیا سے کہا کہ ’’ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب پاکستان کو جو نقصان اُٹھانا، پڑا اُس کے مقابلےمیں ممالک کی طرف سے امداد اور تعاون بہت کم ہے، لہٰذا اس حوالے سے امیر ممالک کو خاص طور پر آگے بڑھنا چاہیے اور تباہ حال لوگوں کی امدادکرنی چاہیے۔‘‘

دوسری جانب، رواں ماہ کی ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ امریکا میں مِڈٹرم انتخابات میں ری پبلکن پارٹی ایوانِ نمایندگان میں اکثریت حاصل کرنے میں کام یاب رہی۔ ان انتخابات میں اہم ریاستوں کے کانگریس اور سینیٹ کے نمایندوں اور ریاستوں کے گورنرز کا انتخاب کیا گیا، جس کامطلب یہ ہوا کہ صدر جوبائیڈن کو دو سال تک مضبوط حسبِ اختلاف کا سامنا کرنا ہوگا۔ نیز،کچھ اہم بِل پاس کروانا بہت مشکل ہوگا۔ انتخابات کےبڑے ایشوز میں معیشت،افراطِ زر اور منہگائی سرِ فہرست ہے۔یاد رہے، امریکا میں دو ایوان ہیں، کانگریس اور سینیٹ۔

کانگریس میں435 ، جب کہ سینیٹ میں 100 ارکان ہوتے ہیں۔انتخابات میں سینیٹ کی34 سیٹس کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔کانگریس عوام کے معاملات دیکھتی ہے، جب کہ سینیٹ کا کام ریاستوں کے مفادات کی نگرانی کرنا ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ امریکی ایوانِ نمایندگان میں بائی پارٹیزن ووٹ(یعنی کسی نوعیت کے بِل پر کسی بھی پارٹی کا نمایندہ حمایت یا مخالفت کا ووٹ ڈال سکتا ہے) بھی ڈالا جاسکتا ہے، اور اُس رُکن پرپارٹی یا اس کا سربراہ کی کوئی قدغن نہیں لگا سکتا۔یوں بھی بالغ جمہوریتوں کی یہی شان ہے کہ وہاں عوامی نمایندے کی حیثیت پارٹی سربراہ کے غلام کی نہیں ہوتی۔

اگرچہ جو بائیڈن نے خارجہ اُمور میں خاصا جارحانہ انداز اپنایا ہے۔ انہوں نے یوکرین پر مغربی طاقتوں کو لیڈ فراہم کی، لیکن امریکی انتخابات میں خارجہ اُمور بہت کم فیصلہ کُن ثابت ہوتے ہیں۔ اندرونِ مُلک اقدامات میں جوبائیڈن نے ادویہ کی قیمتیں کم کیں،کلین انرجی کی طرف بہت توجّہ دی، لیکن ان کے دو سال میں افراطِ زر سے، جو گزشتہ چار عشروں میں سب سے زیادہ ہے، منہگائی میں بےحد اضافہ ہوا، جس سے جوبائیڈن کی مقبولیت کو بڑا دھچکا لگا ہے۔

یہ انتخابات ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھی بہت اہم تھے۔ وہ ان کے نتائج کے منتظر تھے کہ اس کے بعد ہی انہوں نے اگلے صدارتی انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان کرنا تھا۔اسی لیے انہوں نے بڑی تیاری اور سنجیدگی سے ان انتخابات میں اپنا حصّہ ڈالا اور واضح طور پر بتادیا کہ اگر کوئی بڑا بھونچال نہیں آتا، تو وہ ابھی سیاست میں بھاری پڑیں گے۔جس طرح ری پبلکنز ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ اگر وہ صدارتی ریس میں شامل ہوگئے، تو ڈیموکریٹک امیدواروں کو بہت سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے ہوگا۔یاد رہے، مِڈٹرم انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں نے49 نشستوں پر کام یابی حاصل کی، اس طرح ان کی تعداد ایوانِ نمایندگان میں 218ہوگئی ہے، جب کہ ڈیموکریٹس کی تعداد187 ، کیوں کہ ابھی سینیٹ کی تین نشستوں پر دوبارہ پولنگ ہوگی اورجن ریاستوں میں یہ پولنگ ہوگی، وہ جارجیا،نوائڈا اور ایری زونا ہیں۔

فی الوقت سینیٹ میں دونوں پارٹیز کے48,48 ارکان ہیں، اس طرح ان ریاستوں کا فیصلہ آنے کے بعد ہی کسی کی برتری ثابت ہوسکے گی۔فی الحال یہ کہنا تو ٹھیک ہوگا کہ ڈیموکریٹس کی کارکردگی اتنی بُری نہیں رہی، جتنا کہ اندازہ تھا اور اسی لحاظ سے ٹرمپ کی جس لہر کاذکر ہو رہا تھا کہ وہ دونوں ایوانوں میں زبردست برتری کا باعث ہوگی، وہ بھی درمیانے درجے ہی پر رہی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر بائیڈن نے بظاہر تو اطمینان کا سانس لیا، بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ آئندہ صدارتی انتخابات ضرور لڑیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ڈیموکریٹس کی کارکردگی بُری نہیں تھی۔‘‘ادھر ٹرمپ کو غیرمعمولی فتح تو حاصل نہ ہوسکی، تاہم وہ کام یاب رہے اور ری پبلکنز کو کانگریس میں برتری مل گئی، جس کی وجہ سے اب صدر بائیڈن کو بائی پارٹیزن ووٹ پر انحصار کرنا پڑے گا، جس سے ان کے لیے بل پاس کروانے مشکل ہوں گے۔

ٹرمپ اور ری پبلکنز کی کام یابی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ جس قوم پرستی کی لہر کو ٹرمپ نے استعمال شروع کیا تھا، وہ اب بھی امریکی عوام کے ذہنوں میں ہے اور وہ یقیناً بہت سی باتوں سے ابھی بھی مطمئن نہیں ہیں۔جن میں سرِ فہرست معیشت ہے۔کیوں کہ امریکا کی خارجہ پالیسی کچھ بھی ہو،عوام کے لیے اہم ترین امر ان کا معیارِ زندگی ہے۔ امریکی عوام کااپنی حکومتوں سے پہلا مطالبہ یہی رہا ہے کہ وہ ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کریں۔اگر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور وائٹ ہاؤس کے بیانات دیکھیں، تو لگتا ہے کہ ان کی ترجیحات خارجہ پالیسی ہیں اور یہ درست بھی ہے۔

اسی کے ذریعے وہ دنیا میں اپنا ’’سُپر پاور امیج‘‘ برقرار رکھتے ہیں۔ اور چوں کہ ہم جیسے ممالک کا واسطہ انہی رابطوں سے ہوتاہے، اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ امریکی حکومتیں پاکستان، افغانستان،فلسطین، ایران اور یمن کے علاوہ کسی اور مسئلے سے دوچار نہیں، لیکن جب ان کےانتخابات کے نتائج دیکھیں، تو واضح ہوجاتا ہے کہ امریکی عوام کا خارجہ اُمور سے بہت کم واسطہ ہے، وہ زیادہ تر اپنے حالاتِ زندگی بہتر بنانے پر زور دیتےہیں اور اسی کے تحت حکومتوں کے آنے جانے کا فیصلہ بھی کرتےہیں۔ٹرمپ کی شکست میں کورونا سے ہونے والی اموات اور بد انتظامی کا بڑا کردار تھا، حالاں کہ پہلی انسدادِ کورونا ویکسین امریکا ہی نے تیار کی تھی۔

واضح رہے، صرف امریکا ہی میں نہیں، معاشی صورتِ حال دنیا بھر کی جمہوریتوں پر اثر انداز ہورہی ہے۔جیسا کہ برطانیہ میں صرف چھے ہفتوں میں تین وزرائے اعظم بدلےجا چُکے ہیں، تو امریکا کےمِڈٹرم الیکشن سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ اب دونوں پارٹیز کو معیشت پر اپنا منشور مضبوط کرنا ہوگا۔اور یہ صرف زبانی کلامی نہیں ہوگا، بلکہ عملاً بھی اس کے نتائج نظر آنے چاہئیں، وگرنہ صدارت کسی کے پاس بھی ہو، عوام اُس پارٹی کو سزا دینے سے گریز نہیں کریں گے، جو اُن کی توقعات پر پوری نہیں اُترے گی اور صدارتی انتخابات اور مِڈٹرم الیکشن کے ذریعےایسا ہر دو سال بعد ہوتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید