• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الزامات اور بدگمانیاں مسلمان کے ایمان کو کمزور کردیتی ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم کسی کی بھی اچھائیوں کو بھلانے اور اسی پر الزامات لگانے اور بدگمانیاں پیدا کرنے کا اس وقت آغاز کردیتے ہیں جب وہ ہماری خواہشات کے پورا کرنے سے معذوری ظاہر کر دے یا یکطرفہ ساتھ دینے سے انکار کر دے۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ اگر کوئی آئین اور قانون کے مطابق چلنا چاہتا ہو تو بعض لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں اور منافقت کی انتہا دیکھیں کہ دوسری طرف وہی لوگ عوام کو گمراہ کرنے اور بدگمانیاں پیدا کرنے کیلئے آئین و قانون کی عملداری کا راگ بھی الاپتے ہیں۔ تاکہ اپنے مفادات اور مقاصد حاصل کر سکیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف پاکستان کی مضبوطی اور بہتری کیلئےجو گرانقدر کوششیں کیں اور قوم کیلئےجو خدمات سرانجام دیں وہ ہمیشہ یاد رہیں گی جن کی پوری قوم بلکہ دنیا بھی معترف ہے۔ بطور انسان غلطیاں سب سے ہو سکتی ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس انسان کی اچھائیوں، خوبیوں اور خدمات کو یکسر نظرانداز صرف اس وجہ سے کیا جائے کہ اس نے آپ کی اگلی خواہش پوری نہیں کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بطور انسان یہ ممکن ہے کہ کوئی غلطی بھی ہوئی ہو لیکن ان کی نیت اور کارکردگی پر شک کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ بھلا ایسے شخص کا کون اعتبار کرے گا جو اپنے مفادات کے حصول کیلئے افواج پاکستان میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ وہ پاک فوج اور اداروں کی اعلیٰ قیادت کو تنقید برائے تخریب کا نشانہ بنائے۔ وہ بیرونی دنیا سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کی بجائے بگاڑنے کی کوشش کرے۔ ملکی معیشت کو کمزور کرے۔ ملک میں اندرونی سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے کسی بھی اقدام سے گریز نہ کرے لیکن اب اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ہر کوئی جانتا ہے کہ پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ اس کے اندر رہتے ہوئے جنرل کے عہدے یعنی میجر جنرل سے لے کر آرمی چیف تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ ان عہدوں تک پہنچنے کیلئے کئی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پاک فوج میں تو سپاہی بننے کیلئے بڑی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں چہ جائیکہ میجر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل اور جنرل تک پہنچنا۔ سیاست بھی آسان کام نہیں ہے لیکن وہ سیاست جو ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کی غرض سے ہو لیکن افسوس کہ اب ایسی سیاست اور سیاست دان ناپید ہو چکے ہیں۔ اب سیاست دو جمع دو چار بھی نہیں بلکہ دو جمع دو آٹھ بنانے کی کوشش کا نام ہے۔ اس صورتحال میں یہ غنیمت ہے کہ ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت کا جذبہ رکھنے والے خال خال سیاست دان موجود ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نےبطور آرمی چیف ملک و قوم کیلئے جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ہر قسم کے ذاتی مفادات سے بالاتر اور مثالی ہیں۔ اگر بطور آرمی چیف کورونا کی وبائی صورتحال کو لے لیں تو ان کی قیادت میں پاک فوج کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سیلاب کی اچانک آنے والی خوفناک تباہی میں بھی اپنی جانوں کی پروانہ کرتے ہوئے پاک فوج نےجنرل باجوہ کی قیادت میں جو خدمات سرانجام دیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ بیرونی ممالک سے امداد کا حصول ہو یا تعلقات کی مضبوطی ۔ ان کی کوششوں کے تو وہ متعلقہ ممالک بھی معترف ہیں، اسی لئے ان کو متعدد میڈلز اور سرٹیفکیٹ پیش کئے گئے اور اعزازات سے نوازا گیا ۔ اب سوچیں کہ یہ کونسی سیاست ہے کہ اپنے ہی ملک کے ایسے آرمی چیف اور ان کی کوششوں میں ہم آہنگ دفاعی اداروں کی اعلیٰ قیادت کی تمام خدمات کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی مذموم کوششیں کی جائیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو سیاست کے نام پر قوم کو گمراہ کرنے اور ملک کا بیڑہ غرق کرنے کو منافع کا سودا سمجھتے ہیں تا کہ کسی بھی طرح اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ امریکہ پر سازش اور نام نہاد سائفر کے بیانئے اور ڈرامے سے دستبردار ہونے والوں کو یکسر مسترد کردینا چاہئے قوم کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا اور ملک کا خیر خواہ کون ہے اور بد خواہ کون ہے۔ کبھی امریکی سازش اور سائفر، کبھی میر جعفر و میر صادق، کبھی بے وقت الیکشن کا مطالبہ اور حتیٰ کہ آرمی چیف کی تعیناتی کو متنازع بنانے کی مذموم اور ناکام کوشش۔ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ وزیر آباد واقعہ میں ملک کے وزیراعظم، وزیرداخلہ حتیٰ کہ اہم ترین ادارے کے اعلیٰ فوجی افسر پر اس واقعہ میں ملوث ہونے کے الزامات کی مشکوک منصوبہ بندی !کیا یہ سیاست ہے، کیا ان ناپاک کوششوں سے ملک کو فائدہ پہنچا۔ یہ کسی بھی طرح نہ جمہوریت ہے نہ سیاست بلکہ اس کو تو فساد فی الارض سمجھا جائے گا۔ ملکی معیشت اور قوم کی بہتری امن و امان کے قیام، اتفاق و اتحاد اور ایک دوسرے کے احترام میں پوشیدہ ہے جس سے شاید بعض عاقبت نا اندیش لاعلم ہیں یا پھر ان کا ایجنڈا ہی کچھ اور ہے۔ قوم آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی انتھک محنت اور خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ قوم کو ان پر فخر ہے ۔ کوئی کچھ بھی کرلے یہ کریڈٹ ہمیشہ ان کو حاصل رہے گا۔ ذرائع کے مطابق کچھ بھی ہو یہ طے ہو چکا ہے کہ آرمی چیف کا تقرر آئین کےمطابق اور الیکشن مقررہ وقت پر ہوں گے، البتہ گڑ بڑ کرنے والوں کے ساتھ اب سختی سے نمٹا جائے گا۔ نظام کی تبدیلی بھی ناگزیر ہے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین