• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز کو اس کے قیام کے وقت سے جن چیلنجوں کا سامنا ہے اور جن میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بیرونی سطح کی سازشوں اور اندرونی مفاد پرستیوں کے نتیجے میں اضافہ ہورہا ہے ان کا تقاضا ہے کہ قومی دفاع کی ضرورت سے کسی لمحے غفلت نہ برتی جائے اور ہر پل چوکس رہ کر نہ صرف سفارتکاری، گردوپیش کے حالات اور دنیا میں رونما ہونیوالی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھی جائے بلکہ داخلی طور پر بھی ملکی سلامتی پر ضرب لگانے والے پہلوئوں کے خاتمے پر توجہ دی جائے جن میں منصوبہ بندی کے تحت یا اسکے بغیر پیدا کی گئی بدنظمی، کرپشن، میرٹ کی پامالی ، بے انصافی، امیروغریب کے درمیان بڑھتا ہوا تفاوت، قیادت میں تبدیلی کے طریقوں پر شکوک سمیت کئی امور بطور خاص قابل توجہ اور قابل اصلاح ہیں۔ اس منظرنامے میں سویلین اور فوجی قیادت کی طرف سے قومی مفاد کا ہر صورت تحفظ کرنے کا عزم پاکستانی عوام کیلئے تقویت کا باعث ہے۔ آپریشن ضرب عضب سمیت دہشت گردوں کےخلاف کامیاب کارروائی، پاک سرحدوں کے اندر سے بھارت اور افغانستان کے حاضر سروس افسروں کی گرفتاری سمیت غیرملکی جاسوسی نیٹ ورک کے پرزے پرزے کرنے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو روبہ عمل لانے جیسے اقدامات یقیناً حوصلہ افزا ہیں مگر بعض معاملات مزید سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ افغان پالیسی امور اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے منعقدہ سول و فوجی قیادت کے مذکورہ اجلاس کو مبصرین گردوپیش کی سرگرمیوں سمیت کئی حوالوں سے غیرمعمولی قرار دے رہے ہیں۔ اجلاس میں سویلین قیادت کی نمائندگی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کی جو وزیراعظم کی علالت اور ملک میں غیرموجودگی کے باعث حکومتی امور کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ انکی معاونت وزیر دفاع خواجہ آصف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، معاون خصوصی طارق فاطمی اور خارجہ سیکرٹری اعتزاز چوہدری نے کی۔ جنرل راحیل شریف کی معاونت آئی ایس آئی چیف جنرل رضوان اختر سمیت اہم افسران نے کی۔ آئی ایس پی آر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اجلاس نے 21مئی کو بلوچستان میں کئے گئے ڈرون حملے کو ملکی استحکام اور سلامتی کے منافی قرار دیتے ہوئے نشاندہی کی اس سے پاک امریکہ تعلقات کے علاوہ افغان امن عمل بھی متاثر ہوا۔ اجلاس میں آپریشن ضرب عضب کے ثمرات اور کامیابیوں کو مستحکم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ واضح کیا گیا کہ ملک میں کسی بھی منفی اور غیرملکی حمایت سے فعال ہونے والے عنصر کو غیرموثر کردیا جائے گا اور بیرونی ’’منفی عمل‘‘ کا بھرپور جواب دیا جائیگا۔ راولپنڈی میں یہ اجلاس جس روز منعقد ہوا، اسی روز واشنگٹن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس میں امریکی صدر باراک اوباما نے نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) میں بھارتی رکنیت کی حمایت کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون بڑھانے کا اعلان کیا۔ منگل ہی کے روز سینیٹ آف پاکستان میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھارت کے میزائل تجربات، بحرہند کو ایٹمی گڑھ بنانے کی کوششوں اور جارحانہ عزائم کیخلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد لانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد نیو کلیئر سپلائرز گروپ کے 49ملکوں کیساتھ رابطے میں ہے اور ’’22جون کے اجلاس میں ہم کامیاب ہونگے‘‘۔ دوسری جانب غیرملکی خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ پاکستان چونکہ اپنی سست سفارت کاری کے باعث فورم میں شامل اہم دوست ملک ترکی کو بھارتی درخواست کی راہ میں مزاحم ہونے پر آمادہ نہیں کرسکا اسلئے بھارت خودکار طریقے سے فورم کا رکن بن گیا مگر چین جیسے اہم ملک کی موجودگی سے خالی اس فورم میں بھارتی شمولیت کے معاہدے کی کوئی خاص اسٹرٹیجک اہمیت نہیں۔ عالمی طاقتوں کو یہ محسوس کرنا چاہئے کہ خطے میں ایٹمی دوڑ جاری رکھنے میں بھارت کی حوصلہ افزائی عالمی مفاد میں نہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ اپنی سلامتی کیلئے اسلحہ کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت سے نہ تو غافل رہ سکتا ہے اور نہ کسی بھی طور پر غافل ہے۔
تازہ ترین