• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما لیکس کے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کے تعین کے لیے قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی دو ہفتے کی مقررہ مدت میں کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکی تاہم بیرسٹر اعتزازاحسن کے مطابق گزشتہ روز اپوزیشن نے حکومت کے چار میں سے تین نکات من و عن تسلیم کرلیے ہیں جبکہ ایک نکتے میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ حکومتی ٹیم نے اپوزیشن کی تجویز کردہ ترمیم پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے لہٰذا کمیٹی کا آئندہ اجلاس اب جمعہ کو ہوگا۔حکومتی ٹیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ ہم بلاامتیاز سب کے احتساب کے لیے مستقل نظام بنانا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن کے بعض ارکان کا ہدف صرف وزیر اعظم کی ذات ہے جس کا پاناما پیپرز میں کوئی ذکر نہیں۔ شاہ محمود قریشی کا موقف ہے کہ اپوزیشن کے نکات صرف وزیر اعظم کے لیے نہیں بلکہ سب کا احتساب ان ہی نکات کے تحت ہوگا، تاہم آئندہ اجلاس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو کمیٹی میں مزید بیٹھنا بے سود ہوگا ، مذاکرات ناکام ہوئے تو ہم عدالتوں میں جانے اور پرامن احتجاج کے جمہوری حق کو استعمال کرنے پر غور کریں گے۔اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو بھی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے احتساب اور عدالتی تحقیقات کے دائرے میں لانا چاہتی ہے جبکہ حکومتی ارکان اس کے لیے تیار نہیں۔بات اگر اتنی ہی ہے تواس پر حکومتی ارکان کی ہچکچاہٹ کی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وزیر اعظم قوم سے اپنے خطاب میں خود پیشکش کرچکے ہیں کہ پاناما لیکس کی عدالتی تحقیقات کا آغاز ان کی ذات اور ان کے خاندان سے کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہیے کہ پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی ملک میں افراتفری کا سبب بنے گی جبکہ ان دنوں علاقائی اور عالمی حالات بھی ہمارے لیے خاصے ناسازگار ہیں۔ اس بناء پرقومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ فریقین اپنے موقف میں لچک پیدا کریں، متفقہ نکات مرتب کرکے عدالتی کمیشن کے قیام کی راہ ہموار کریں ، تحقیقاتی عمل میں سب مکمل تعاون کریں اور پھرکمیشن کے فیصلوں کو سب کی جانب سے کسی ردّ وکد کے بغیر قبول کیا جائے۔
تازہ ترین