• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچا تھا کہ رمضان المبارک میں سیاست کی وادی پُر خار سے دامن بچائو ں گا اور قارئین کے ساتھ ان روح پرور ساعتوں کو شیئر کروں گا جو گزشتہ سالوں میں رمضان المبارک کے دوران حرمین شریفین اور مسجد قبا میں نصیب ہوئی تھیں۔ مگر
یہ نہ تھی ہماری قسمت
بعض لفظوں کے تیر ایسے ہوتے ہیں کہ آناً فاناً جگر کے پار ہوجاتے ہیں اور پھر آہ کئے بغیر بلکہ چیخ و پکار کئے بغیر بھی چارہ نہیں۔ وزیراعلیٰ خادم اعلیٰ فرماتے ہیں کہ اشرافیہ منرل واٹر پیئے اور عام آدمی کو صاف پانی بھی نہ ملے، مجھے برداشت نہیں۔ سبحان اللہ کیا زبردست ڈائیلاگ ہے۔ اسے کہتے ہیں زخموں پر نمک پاشی کرنا، اسے کہتے ہیں غریب کی بے بسی کا مذاق اڑانا اور اسے کہتے ہیں کچھ خرچ کئے بغیر ہمدردی جتلانے کی سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ منرل واٹر تو وزیراعلیٰ اور ان کی اپرکلاس اشرافیہ پیتی ہوگی عام متوسط کلاس آدمی کو اگر صاف ستھرا ڈرنکنگ واٹر نصیب ہو جائے تو وہ اپنے نصیبے پر رشک کرتا ہے۔ حضور والا! کیا آپ کے علم میں نہیں کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں 50فیصد شہریوں کو اور دیہاتی علاقوں میں 90فیصد دیہاتیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ کیا خادم اعلیٰ کے علم میں نہیں کہ جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں غریب عوام انہی چھپڑوں سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں جہاں سے مویشی اور دوسرے جانور پانی پیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ تیس برس سے آپ کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں۔ شہریوں کے لئے صاف پانی کا انتظام کرنے میں کس چیز نے آپ کے ہاتھوں کو روک رکھا ہے۔ آپ تو نجی محفلوں میں بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں جو کچھ چاہتا ہوں اسے چٹکی بجاتے ہوئے حاصل کرلیتا ہوں۔ جب صاف پانی اور بنیادی انسانی ضروریات کا حصول آپ کی ترجیحات میں شامل نہیں، تو پھر ایسے ڈائیلاگ بول کر غریب کی غریبی کا مذاق اڑانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ اور معاشرے ہوتے ہیں جہاں حکمرانوں کو اگر برداشت نہیں ہوتا تو پھر ان کی زندگی کا نقشہ بھی کچھ اور ہوتا ہے۔ پھر وہ محلات میں نہیں رہتے۔ بیرون ملک اسپتالوں میں اپنا علاج نہیں کراتے، پھر حکمرانوں کے اربوں کے بینک بیلنس نہیں ہوتے ،پھر ان کی آف شور کمپنیاں نہیں ہوتیں جن کا پتہ غریب عوام کو پاناما لیکس جیسے اسکینڈلوں سے چلتا ہے۔ پھر تو سنگاپور کے لی کان یو جیسا حال ہوتا ہے کہ تیس برس تک شہروں اور ایوانوں میں نہیں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرکے جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں کی طرح بینک بیلنس بھی خالی ہوتا ہے اور اس کی ذاتی جائیداد کا خانہ بھی بالکل خالی ہوتا ہے۔ مگر ان تیس سالوں میں وہ عوام کے لئے پینے کا صاف پانی ہی نہیں ہر شہری کے بچے کے لئے اعلیٰ تعلیم اور سنگاپور کے ہر انسان کے لئے یورپ و امریکہ سے بڑھ کر جدید ترین علاج و معالجے کو یقینی بنادیتا ہے۔
وزیراعلیٰ کے اس جملے نے میرے سینے میں اس لئے چھید کیا ہے کہ وزیراعلیٰ بھی پیپلز پارٹی کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عوام جاہل ناسمجھ اور جذباتی ہیں۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 46برس سے روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگارہی ہے اور اس کے حاضرین سمجھتے ہیں کہ عوام اتنے بھولے بھالے ہیں کہ وہ تھر کے میدانوں میں بھوک پیاس سے دم توڑتے رہیں گے۔ وہ سندھ کے ریگستانوں میں پانی اور زرخیز زمینوں کے لئے ترستے رہیں گے۔ وہ سندھ کے شہروں میں پانی کی بوند بوند کو ترستے رہیں گے۔ مگر جب ووٹ دینے کا موقع آئے گا تو وہ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پر دما دم مست قلندر کہتے ہوئے مہر تلوار یا تیر پر لگائیں گے۔وزیر اعلیٰ پنجاب بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایسے جذباتی ڈائیلاگ بولیں گے یا ایسے جذباتی نعرے لگائیں گے اور عوام ان کے سوا کسی اور کو ووٹ نہ دیں گے۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی حالت الحفیظ الامان دور دراز علاقے تو رہے ایک طرف لاہور میں جا کر دیکھیں۔ ایک حشر کا سماں ہو گا۔ گرمی، گندگی، مریضوں کا اژدہام ،ڈاکٹروں کی عدم دستیابی اور دوائیں ندارد۔
اگرآپ کو سرکاری اسپتالوں اور سرکاری اسکولوں کو درست کرنا ہےتو پھر فوری طور پر قانون سازی کرنا ہو گی کہ ماضی کی طرح حکمرانوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں پڑھیں گے اوراپنااور اپنے بچوں کا علاج انہی سرکاری اسپتالوں سے کرائیں گے۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں ایک غریب مریض کو انجیو گرافی نہیں صرف ایکو کرانے کے لئے آٹھ سے بارہ ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے۔ اسی دوران اگر خوش قسمتی سے مریض بچ گیا تو اس کی ایکو ہو جائے گی ورنہ کا رکنان قضاو قدر جانیں اور اس کی ایکو جانے۔ یہی حال سی ٹی اسکین کا ہے۔ اول تو میو اسپتال اور سروسز اسپتال جیسے سرکاری اسپتالوں کی مشینیں خراب ہوں گی اور اگر اکا دکا درست حالت میں ہوں گی تو اس کے لئے مہینوں کی تاریخ دی جاتی ہے۔
کیا حکمرانوں کو معلوم نہیں کہ اسی پنجاب میں ایک ایک شخص کے بائیس بائیس بچے ہوتے ہیں جن میں سے کسی ایک نے بھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا ہوتا۔ پھر حکمران کس منہ سے ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔ ہم غربت اور جہالت کے غول کے غول پیدا کر رہے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔جاہل جمعداروں کی تعدا د لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ گئی ہے مگر حکمرانوں کے ایوانوں میں کسی کی نیند نہیں اڑتی۔ بس ایسے سنہری اقوال سننے میں آتے ہیں کہ اشرافیہ منرل واٹر پئے اور غریب کو صا ف پانی بھی میسر نہ ہویہ مجھے برداشت نہیں ۔
پاکستان میں5سے لے کر 16برس تک کی عمر کے کم از کم ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان بچوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے تقریباً پونے دو کروڑ سے لے کر دو کروڑ تک بچے اسکولوں میں نہیںجاتے۔وہ ورکشاپوں ،دکانوں، ریستورانوں اور گھروں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ حکمران، اسکولوں پر خرچ کرنے کے بجائے اور ہر پاکستانی بچے کے لئے میٹرک تک لازمی تعلیم کے آئینی تقاضے کو پورا کرنے کے بجائے اربوں روپے ’’پڑھا لکھا پنجاب ‘‘کے نعروں پر مشتمل اشتہارات اور دوسرے نمائشی منصوبوں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ میں تو نہایت دل سوزی اور درد مندی کے ساتھ کہتا ہوں اگر آپ آدمی کو انسان نہیں بنانا چاہتے یا نہیں بنا سکتے اگر آپ انہیں تعلیم نہیں دے سکتے انہیں علاج کی سہولتیں نہیں مہیا کر سکتے اور ان کے لئے روزگار کا بندوبست نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم بے ہنگم بڑھتی ہوئی آبادی پر پابندی عائد کر دیں۔
کتنا ہولناک نتیجہ ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہمارے حکمران نہ خود لوگوں کی حالت بدلنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنی حالت آپ بدلنے کا موقع دینے کے لئے تیار ہیں۔ کتنی خرابی بسیار کے بعد ہماری حکومتیں بلدیاتی اداروں کے انتخابات پر آمادہ ہوئی تھیں۔ اب کئی ماہ سے انہیں معمولی اور مختصر سے اختیارات دینے کو بھی تیار نہیں۔ کچھ کالم نگار اور تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب زیرو میٹر دل کے ساتھ لندن سے واپس آئیں گے۔ میر ی دعا ہے کہ اللہ کرے میاں صاحب کا دل بدل جائے۔ اور وہ صحت کی دولت سے مالا مال ہو کر جب لوٹیں تو آتے ہی یہ اعلان کر دیں کہ اب ان کی دولت اور توانائی پاکستان کے غریبوں کی حالت بدلنے پر خرچ ہو گی۔ اگرہمارا یہ خواب پورا ہو گیا تو پھر پاکستان کے ہر غریب کو منرل واٹر نہ سہی مگر ڈرنکنگ واٹر ضرور نصیب ہو گا۔
تازہ ترین