• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے معاشی ماہرین ،تجزیہ نگاروں اور سرگرم سیاست دانوں پر یہ اوپن سیکریٹ تو واضح ہے کہ ملکی گھمبیر سیاسی صورتحال جس میں اب بڑھتے ایڈمنسٹرٹیو ڈس آرڈر کا بھی اضافہ ہوگیا، قومی معیشت پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ شاید وہ اندازہ نہیں کر پا رہے کہ مسلسل تشویشناک ہوتی اقتصادی صورتحال ہماری ہیجان خیز سیاسی و صحافتی ابلاغ میں کتنا اضافہ کر رہی ہے۔ اس کو ماپنے کا پیمانہ تو ہم کیا بناتے جو جدید طریقہ ہائے تحقیق میں ممکن ہے لیکن بگڑتی معاشی حالت کے تجزیوں، آرا میں اس کی نشاندہی بالکل ہی نہیں ہوتی کہ آئے دن سٹاک ایکسچینج اور دوسری تجارتی اقتصادی سرگرمیوں پر جو پریشان کن وقت بار بار آتا ہے اس کا کتنا تعلق قومی سطح کی مکمل پروپیگنڈہ سٹائل کمیونیکیشن سے ہوتا ہے، حالانکہ سیاسی ابلاغ کے پرویپگنڈےسے ہٹ کر ابلاغ عامہ Mass Communication اک الگ جہت ہے ،جس کیلئے پاور پلیئرز میڈیا کو استعمال کرنےکیلئے اپنے تئیں تو ہر جتن کرتے ہیں جبکہ میڈیا پریکٹس میں سیاسی ابلاغ کی تو ترجیحاًگنجائش ہے لیکن پروپیگنڈے کی ہر گز نہیں، لیکن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے زور پر میڈیا پاور میں کئی گنا اضافے ہونے کے بعد سیاسی کھلاڑیوں کیلئے تو یہی پروپیگنڈہ سٹائل کمیونیکیشن ناگزیر ہوگئی ہے۔ اس کیلئے انہوں نے کارپوریٹ ورلڈ کے انٹرسٹ گروپس اور حکومتی وسائل کی مدد سے پولیٹیکل اکانومی کا استعمال شروع کر دیا ہے، جو بڑھتا ہی جا رہا ہے اور عالمی سطح پر GLOBAL COMMUNICATION کے بڑے مسائل میں سے ایک بن کر غالب ہوا ہے کہ پیشہ ورانہ طور پر صرف اور صرف سوسائٹی کی ضروریات پوری کرنے کا پابند میڈیا اپنے اس انتہائی بنیادی مقصد سے ہٹ کر حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے اثر سے خود کو نہیں بچا پا رہا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان سوسائٹی (ناظرین سامعین اور قارئین) کوہو رہا ہے اور دوسرا خود روایتی میڈیا کو جس کی متاع عزیز اس پر سوسائٹی کا اعتبار (CREDIBILITY) ہوتا ہے ،جو میڈیا کے پروپیگنڈہ سٹائل پولیٹیکل کمیونیکیشن سے متاثر ہوتی ہے، یہ سہولت مین اسٹریم میڈیا کے اعتبار اور پیشہ ورانہ اقدار کے لئے چیلنج بن گئی ہے کہ اس حالت میں ذرائع ابلاغ کا ہدف (TARGAT AUDIANCE) کے مفادات، ضروریات اور دلچسپی مسلسل اور تیزی سے متاثر ہو رہی ہےایسے کہ میڈیا صدیوں کے ارتقاء کے بعد جب سحر انگیز کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے زور پر انسانی معاشرے کی بھرپور خدمت کے قابل ہوا تو وہ عوام کی بجائے طاقتور طبقات کا ہوگیا۔

جی ہاں! میڈیا، جو اب انڈسٹری کہلاتا ہے ،کے پاس اپنے اس انداز میں آنے کے دس دلائل ہیں لیکن اسے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’میڈیا برائے معاشرہ‘‘ دنیائے ابلاغ کی کتنی بڑی حقیقت ہے۔ انڈسٹری کی لائف لائن کو قائم رکھنے کے لئے تھیوری آف پولیٹیکل اکانومی آف میڈیا قبولیت کی کوئی حد ہونی چاہئے، سیاسی کوریج کے جواز سے ملکی اکانومی کو کتنا متاثر کیا جاسکتا ہے؟ اور پبلک افیئرز صرف مہنگائی کی رسمی خبریں برائے اتمام حجت ،سے پیشہ صحافت کا بنیادی تقاضا کتنا پورا ہوتا ہے؟ سیاسی ابلاغ کی آڑ میں انٹرسٹ گروپس کا پروپیگنڈہ سماجی اخلاقیات اور احترام آئین و قانون کو کتنا متاثر کر رہا ہے؟ وقت آگیا ہے کہ میڈیا انڈسٹری اس پیمائش کا پیمانہ تیار کرکے پولیٹیکل کمیونیکیشن (پروپیگنڈہ سٹائل) اور عوامی مفادات و ضروریات کی حامل رپورٹنگ پبلک اور اس کی فالو اپ کوریج کے درمیان کوئی تو توازن قائم کرے۔ جنوبی ایشیائی ممالک کا میڈیا ترقی پذیر دنیا میں سب سے سرگرم اور زیادہ (پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود) آزاد میڈیا ہے۔ لیکن ریجن کی دو ارب کو پہنچی آبادی، زیر بحث مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ نتیجتاً بھارت ڈیموکریٹک سیکولر سے ہندو بنیاد پرستی کی راہ پر چل پڑا اور پاکستان میں جو کچھ بہت منفی ہو رہا ہے وہ ہم جانتے اور اس پر مضطرب ہیں۔ انڈسٹری اور پاور پلیئرز تو اس پر کچھ نہیں کریں گے، دو امیدیں ہیں ایک ظہور پذیر سوشل میڈیا سے نکلا سٹیزن جرنلزم دوسرے یونیورسٹیاں، میڈیا سکالرز اور ناقدین کی توجہ شدت سے مطلوب ہے۔ کچھ کر سکو تو کرو۔

یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ سوشل میڈیا روایتی مین اسٹریم میڈیا کیلئے چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ اونر شپ کریڈیبلٹی کے سوال اور بغیر کسی تنظیم اور منظم پیشے کے اس کی اہمیت حساسیت اور اثر سے اب انکار ممکن نہیں۔ ان سب میں اضافہ ہو رہا ہے اور اصلاح بھی۔ یہ ریاست و حکومتوں کے اس پبلک اورئنٹڈ ایجنڈے کو نتیجہ خیز صورت میں ایڈریس کرنے لگا ہے جن سے حکومتیں اور مین اسٹریم میڈیا گریزاں ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوا کہ ریاستی ادارے انحطاط میں آگئے تو، سوشل میڈیا سے برآمد سٹیزن جرنلزم نے انہیں جگا دیا ۔’’ گستاخ یوٹیوبرز‘‘ نے کیا نیب کا کردار ادا نہیںکیا اور کر رہا ہے؟ پارلیمان نے انسداد احتساب کی قانون سازی کی تو اس پر مین اسٹریم کے مقابل پارلیمان کا زیادہ احتساب سوشل میڈیا نہیں کر رہا؟

ذرا یوں بھی سوچیں کہ دل، عشق و محبت، احساس و احترام، سوز و مستی، احترام و عزت اور باہمی تعاون و اشتراک کی علامت ہے تو شکم (پیٹ) دنیا پرستی، ہوس، حرص و لالچ، غلبے،غرض و مفاد اور رعب و تکبر کی۔ عالمی انسانی معاشرے کو کس طرف جانا ہے؟ سب سے زیادہ تو یہ سوال سیاست و صحافت سے اس کے بنے مجموعی ابلاغی دھارے کو دیکھ ان (سیاست و صحافت) سے نہیں بنتا؟ کہ :سیاسی و صحافتی ابلاغ، دل یا شکم؟ چلیں اس حوالے سے سارے جہاں کا درد تو بیان کردیا ہم پاکستانی جن کے بزرگوں نے فلاحی اسلامی جمہوریہ بنانے کیلئے عشق و احساس کے ابلاغ سے عبادت جیسی سیاست نکالی تھی جو آج بھی بھرپور ابلاغی پوٹینشل کی حامل تو ہے، خلق خدا کی خدمت کیلئے ہم سب دل والے ابلاغ کا کوئی نمونہ تیار کریں۔ ذرا سوچیں!

تازہ ترین