• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’خوف کی جامد فضا میں، میں اپنی بات بھی نہیں سن سکتا۔‘‘(سیموئل بٹلر)

عشروں سے یہ عمومی تصورراسخ ہوچکا ہے کہ ہم وہ بے وقعت، حقیر ذرے ہیں جنھیں وقت کی آندھی اُڑائے پھرتی ہے ۔ ایسالگتا تھا کہ خوف کے بوجھل احساس تلے دباوقت بمشکل ہی رینگ پارہا ہے ۔ کسی وارننگ کے بغیر یک لخت وارد ہونے والے بے مہار چیلنج ہمیں مسلسل گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔کوئی جائے مفرباقی نہیں۔

کائنات میں انسان کا وجود ایک ایسے منظر نامے کا حصہ ہے جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں ۔ لیکن زندگی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جنھیں ہم کسی مخصوص سمت میں اپنی مرضی سے ڈھال سکتے تھے ۔ ممکنہ طور پر ایسا ہوا کہ ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہونے والے بہت سے عوامل کو اس طرح ڈھال کر ہمارے سامنے پیش کیا گیا کہ ہم اپنے اس حق سے دست بردار ہوگئے۔خود کو وقت اور حالات کے سفاک دھارے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ یہ ہمیں کہاں لے جائیں گے ؟ اس پہلو پر ہم نے زیادہ توجہ نہیں دی کیوں کہ ہم تمام عوامل کو قسمت کا لکھا سمجھ کر ان کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے تھے ۔

سفاک آمریتوں، من گھڑت اور کنٹرول شدہ جمہوریتوں اور بدعنوانی کے وسیع جال کے درمیان گٹھ جوڑ پروان چڑھایا گیا۔ لوگوں کو دبائے رکھنے کے لئے خوف کا ماحول پیدا کیا گیا تاکہ وہ اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا شروع نہ کر دیں۔ریاستی اداروں کو غیر فعال کرتے ہوئے دیگر خرابیوں کے علاوہ احتساب اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو مکمل طور پر تحلیل کردیا گیا۔پھر صفوں کے اندر کچھ مقبول افراد نے بھی بے بسی کے احساس کو مزید برقرار رکھنے کےلئے مایوسی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ماحول میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

لیکن اس پر بحث چھڑ گئی کہ کیا یہی وہ ریاست ہے جسے ہمیں اپنی قسمت کے طور پر قبول کرنا چاہئے؟ یا پھر شمار رکاوٹوں کے باوجود اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہئے؟ کیا آئین کی کتاب ہم سے وعدہ نہیں کرتی کہ ہم اس قعر مذلت سے باہر نکل سکتے ہیں، اپنے وقار کو بحال کرسکتے ہیں اور ایسی زندگی گزارسکتے ہیں جو بہتر ی کے مواقع فراہم کرے؟ جوں جوں تنازعات اور معاشرتی تضادات بڑھتے گئے، یہ بحث مسلسل شدت اختیار کرتی گئی۔ اس نے مختلف پس منظر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا جو مختلف قسم کی خرابیوں کا شکار تھے جن کے علاج کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے ، انصاف کےلئے ایک دبی گھٹی ہوئی پکار موجود تھی ۔ جب خاکستر سے یہ چنگاری بھڑک اٹھی تو خوف کے ہیولے چھٹنے لگے۔ جامد فضا میں ایک جنبش ہوئی، زندگی نے انگڑائی لی اور پسے اور دبے ہوئے عوام کو آواز مل گئی۔ یہاں تک کہ طاقتورحلقوں نے اس بات کا نوٹس لینا شروع کیا۔

ایک جملہ ہے جو میں نے اپنے پچھلے مضامین میں استعمال کیا تھا:ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔2008ء سے لے کر اب تک ہم نے کوئی براہ راست مداخلت تو نہیں دیکھی لیکن کنٹرولڈ جمہوریتوں کی تجربہ گاہ سے باہر بھی نہیں نکل سکے۔

یہ صرف قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا مسئلہ نہیں ۔ یہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے بارے میں ہے جن میں سرپرستی کی چھتری میں آنے والے لوگوں کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ۔ نتیجتاً، اگلے انتخابات، جب بھی ہوں،کو کنٹرول کرنے کی ضرورت باقی ہے۔ درحقیقت، ہجوم کے جذبات اور ان کی اٹل عصبیت کو دیکھتے ہوئے نتائج میں ہیرا پھیری کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف ملک افراتفری کے طوفان کی نذرہوجائے گا بلکہ مرضی اور اپنی پسند کے لیڈروں کو منتخب کرنے کے حق سے محرومی پر ملک میں عوامی شورش بھی بپا ہوسکتی ہے۔

کچھ دن پہلے کسی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تعطل کیسے دور ہو سکتا ہے؟ میرا جواب تھا کہ قوموں کی تاریخ میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب کچھ لڑائیاں لڑنا پڑتی ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام کو اس موڑ پر ایک ایسی جنگ کا سامنا ہے ۔ایک ایسی جنگ جو صحیح اور غلط کے درمیان ازسرنو لکیر کھینچے گی، قانون کی بالادستی کو قائم کرے گی اور اس بات کویقینی بنائے گی کہ دولت اور سماجی مرتبے سے قطع نظر سب لوگ قانون کی نظر میں برابر ہوں ۔ یہ ایک مہیب چیلنج ہے ۔اس فیصلہ کن موڑ پر یہ ایک بحران کو بھی جنم دے سکتا ہے، لیکن اس جنگ کو لڑنا اور جیتنا ہے۔اس کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں۔

وقت کے سکوت میں خوف کے گہرے ہوتے ہوئے سایوں سے نکل کر ہمیں تیزی سے تازہ اور منصفانہ انتخابات کی طرف بڑھنا ہے ۔ ان میں کسی حلقے کی مداخلت نہ ہو، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ لوگوں کو جبر مسلسل سے نجات درکار ہے ۔ اس کا اور کوئی راستہ نہیں ہے سوا ئے اس کے کہ اُنہیں ووٹ کے ذریعے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے۔

تازہ ترین