• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی 75سالہ تاریخ میں پاکستان مسلسل بحرانی کیفیت کی مملکت ثابت ہوا ۔ دولخت ہو کر بھی سنبھلا نہیں ،گرنا سنبھلنا اس کا معمول بن گیا ہے۔ قدرت کے نظام، پھر بنانے بچانے والوں کے اخلاص و اتحاد اور قربانیوں سے، اور کچھ روبہ زوال ہوتے بھی ،اپنی امتیازی بشری صلاحیتوں سے قائم دائم تو ہے اتنا کہ ایٹمی ہے لیکن سیاسی اقتصادی اور انتظامی پستی کا عالم یہ کہ ساڑھے سات عشروں کی تاریخ میں چار مارشل لا ، ایک ڈیڑھ عشرے کو چھوڑ کر اقتصادی وجود ڈگمگاتا رہا ،آئین وفاقی ، متفقہ اور جمہوری ہے لیکن اندازہ ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی کہ اس ا سلامی جمہوریہ کا اصل حکمراں کون اور کتنا ہے ؟یہ سوال بھی بہت چبھتاہے کہ کون کون کیسے حکمراں بن گئے جو برسوں سے اہلخانہ سمیت سول پارٹی آف گورننس کے اجارہ دار ہیں ؟ غضب خدا کا ہر طرح کے سیاسی حکومتی تجربات کے بعد اور برسوں سے اقتدار میں رہنے والے آج بھی حکمراںہیں ، حالت یہ ہے کہ رواں مالی سال ملکی تاریخ کاسب سے کنگال سال ہے جس میں آبادی کا بڑا حصہ روٹی تک کو ترس گیا ،چولہا جلانا محال ہو گیا ۔ الگ ہو جانے والا بھائی ہمارے 8ارب ڈالرکے مقابل اب 51ارب ڈالر کے خزانے کا مالک ہے ۔حالات حاضرہ کا سب سے اہم اور (مطلوب بھی ) قومی موضوع کوئی سات ماہ سے یہی بدترین سیاسی اقتصادی اور انتظامی بحران بنا ہوا ہے اور تان یہاں ٹوٹ رہی ہے کہ ملک ڈی فالٹ ہو کر سری لنکا تو نہیں بن جائے گا ؟ کوئی حل سجھائی نہیں دے رہا ،بحران کے فالواپ کا حاصل یہ ہی سوال بن گیا ہے اور ہماری کرپشن اور مکروفریب سے اٹی قومی معیشت کی پہچان جن کی آمد پر شور مچا تھا کہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر پاک سرزمین پر ان کا پہلا قدم پڑتے ہی ڈالر روپے سے ڈر کر الٹے پائوں بھاگے گا ،قوم نے چند روز کیلئے یہ شعبدہ دیکھا بھی تو کچھ اندازہ نہ ہوا کہ ملکی کرنسی کے اس اتار چڑھائو کا کنٹرول کہاں ہے ؟اب وزیراعظم جنہوں نے مہنگائی کم کرنا تھی اور اپنی ’’اسپیڈ‘‘ سے دال روٹی آسان بنانا تھی عوام کی خدمت تو دور کی بات ان سے دور دور کبھی جدہ جاتے ہیں اور کبھی کئی کئی روز لندن کے ہو جاتے ہیں ۔سیاسی تجزیوں کا رخ بہت سے عوام کو لولی پاپ دینے والے بیانیوں سے ہٹ کر ٹی وی ٹاک شوز پر اسی سوال کے جواب کی تلاش کی طرف مڑ گیا ہے کہ پاکستان سری لنکا تو نہیں بن جائے گا ؟

قارئین کرام ! یہ ہمارا ایک روپ ہے ،ہم کوئی زیادہ ہی مہم جو قوم نہیں بن گئے ؟ ’’جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا ...لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ‘‘۔ ہو گا اقبال کا درس ہوشیاری و خبرداری یا تصور زوال و عروج جو یہ فرمایا۔ ہماری مہم جوئی عجب ہے کہ کبوتر امن کی علامت ہے ہم اپنا ہی امن تباہ کرتے ہیں اور اپنے ہی شاہینوں کا لہوبہا نے سے باز نہیں آتے ہیں! اس کار محال کیلئے درباری سرکاری صحافت کی معاونت لینے میں بھی کسر نہیں چھوڑتے کہ جتنی مل جائے اتنی کم، سرکاری ٹی وی چینل سے چنگاریاں تک برساتے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان کا آئینی نام تو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ ہی ہے ،کام اعمال جو بھی ہیں ،یہ صرف نام کی برکت ہے یا اس سنہری تاریخ کی جس میں قیام و دفاع پاکستان اور اس کی حرمت و عزت اور اسے معتبر اور شفاف رکھنے تک کیلئے شہدانے اپنا مقدس خون بہایا ، پاکستان بدلتے موسموں کی سرزمین ہے اور سیاسی موسم بھی رنگ بدلتے ہیں ایک دو نہیں کئی کئی ،جب اندھیرے چھاجاتے ہیں آندھیاں بگولے بن کر آتی اور جاتی ہیں حبس سانس روک لیتا ہے ،برفانی ہوائوں سے خون جم جاتا ہے تو بہاروں کی آمد میں دیر نہیں لگتی چہار سو رنگ و خوشبو پھیل جاتی ہے ۔

قارئین کرام ! دیکھیں ،سنیں، غور کریں ... پریشاں ماحول کی اوٹ سے قافلہ جمہوریت کی آمد ہے شاید اس بار اصلی والی سڑکوں پر قافلہ جمہور کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہے جمہور خود ہی سڑکوں پر نکل آئے ہیں بغیر بریانی اور من پسند نان کباب کی دعوت کے، رت بدل رہی ہے آثار نمایاں ہیں فضا میں بہت آلودگی ہے گرہن زدہ حکومت آمدِ بہار میں رکاوٹ ہے لیکن طاقت کے سرچشمے ابلنے کو ہیں ،کوئی پررونق انتخاب دعوتوں میں بھی بائولا بننے کیلئے تیار نہیں نہ مبالغہ آمیز وعدے وعید سننےکیلئے۔ ہر کوئی مصنوعی گرہن زدہ مسلط ماحول کو ختم کرنے کا صرف خواہش مند ہی نہیں اس کو چھانٹنے اور آمدِ بہار کی راہ نکالنے میں اپنا حصہ ڈ النے کا عزم سینے میں بس چکا ،’’زمانے کے انداز بدلے گئے... نیا راگ ہے ساز بدلے گئے ‘‘اور ’’پاک سرزمیں مِیر و سُلطاں سے بیزار ہے‘‘ اور پاکستانی عوام نے اپنی اشرافیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی ہیں ۔

عزیزانِ من! عوام (ایٹ لارج) سماجی انصاف کی بدترین شکل اور سیاسی و اقتصادی اور مکمل بگڑی انتظامی ملکی صورتحال، اوپرسے ریکارڈ مہنگائی پر بھی غیر روایتی انقلاب آفریں خبر یہ ہے کہ 23کروڑ پاکستانی بالآخر اچھائی اور برائی کو پہچان گئے اور خوب پہچانے ،جس پر قدرت کی مدد آ گئی یا قدرت کی مدد سے پہچانے ،میرا ایمان تو آخر الذکر پر ہے ،بہرحال یہ تو مذہبی فلسفیانہ بحث ہے جو بدلتی رت آسمانوں سے اتر رہی ہے اسے ہاتھ تھام کے نیچے اتار کر سیاسی، اقتصادی اور ا نتظامی ناپاکی پاک کرنا ہو گی ،اس تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے، اس کا ایک ہی پتہ ہے کہ گرہن زدہ حکومت کو ناقابل جواز مہلت نہ دی جائے، بہت دی بار بار دی ناقابل ادائیگی کفارہ ہے تو ممکنہ حد تک جلد اور یقینی شفاف۔ الیکشن ہی وہ پتہ ہے جو ہمیں بہار ِجمہوریت سے ہمکنار کرے گا لیکن پھولوں کو مسکراتا رکھنے اور خوشبوئوں کو ہر سو پھیلانے کےلئے باغبانی اور نگہبانی لازم ہے، وگرنہ آئی بہار بھی اجڑ جاتی ہے ہم یہ تجربہ کر چکے، ہر دو جانب کے باغبانی کے دعویدار اپنا جائزہ خود لیں کہ اپنی پرآشوب مطلبی یا سیاسی جدوجہد میں پاکستان کا اجاڑ ختم کرنے اورگلشن کو بہار دینے کےلئے اہل اور تیار ہیں ؟نہیں تو جنگی بنیاد پر اس کی بھی تیاری کریں بتائیں عوام کو کیا ہے اب ان کے پاس کشتی کو گرداب سے نکالنے کےلئے سیاسی بیانیے بہت ہو گئے عوامی کی طرف آئیں ۔

تازہ ترین