• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگائی اگلے سال بھی رہے گی، گرانی کا دباؤ مسلسل اور توقعات سے زیادہ ہے، اسٹیٹ بینک، شرح سود 15 سے بڑھا کر 16 فیصد کردی

کراچی(اسٹاف رپورٹر)اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کرتے ہوئے پالیسی ریٹ 15 سے بڑھا 16 فیصد کر دیا ہے۔

ایم پی سی کے اجلاس کے بعد زری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بینک دولت پاکستان نے کہا ہے کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہےجو اگلے سال بھی جاری رہنے کا امکان ہے ‘.

امسال درآمدات 20.6‘برآمدات 9.8جبکہ ترسیلات زر 9.9ارب ڈالر رہیں ‘مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا‘.

رواں مالی سال شرح نمو 2فیصد جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد رہنے کی توقع ہے ‘اوسط مہنگائی 21 سے 23 فیصد رہنے کی امیدہے‘بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں‘بجلی کی پیداوار میں مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد (سال بسال) تک گر گئی‘ توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں بالترتیب 35.2اور 35.7فیصد (سال بسال) اضافہ ہوا‘مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے بڑھ کر ایک فیصد ہو گیا ۔

 اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ مہنگائی کا دباؤ توقع سے زیادہ اور مسلسل ثابت ہوا ہے‘ شرح سود بڑھانے کے فیصلے کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ مہنگائی پائیدار نہ ہوجائے، مالی استحکام کو درپیش خطرات قابو میں رہیں اور اس طرح زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کی جاسکے۔

اعلامیے کے مطابق فیصلے کا مقصد مالیاتی شعبے کا استحکام بھی ہے۔ایس بی پی کا کہنا تھا کہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے سبب تحریک مل رہی ہے، جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ یہ صورتحال وسط مدتی نمو کو متاثر کرسکتی ہے، جس کے سبب لاگتی مہنگائی نظر انداز نہیں کی جاسکتی اور زری پالیسی کے ذریعے ردعمل ضروری ہو جاتا ہے۔ایس بی کے مطابق حالیہ سیلاب سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے باعث غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے قوزی مہنگائی (کور انفلیشن) مزید بلند ہوئی۔

اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ درآمدات میں کمی کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر میں جاری کھاتے کے خسارے میں خاطر خواہ اعتدال آیا جبکہ اے ڈی پی کی جانب سے فنڈنگ ہوئی لیکن اس کے باوجود بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار رہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اعلامیے میں تصدیق کی گئی کہ مالی سال 2023 میں 2 فیصد شرح نمو اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

 مرکزی بینک کے مطابق بُلند غذائی قیمتوں اور کور انفلیشن کی وجہ سے اوسط مہنگائی مالی سال 2023 میں 21 سے 23 فیصد تک رہنے کی امید ہے۔ اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ ستمبر کے مہینے میں بڑی صنعتوں (ایل ایس ایم) کی پیداوار گزشتہ برس کی نسبت کمزور رہی اور صرف برآمدی نوعیت کے شعبوں میں مثبت نمو ہوئی۔

مزید بتایا گیا کہ سیلاب کی وجہ سے چاول اور کپاس کی فصلوں میں بھاری پیداواری نقصان ہوا جس کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ اور تعمیرات میں سست نمو اس سال کی نمو پر اثر انداز ہوں گی۔

مالی سال 23ء میں دوطرفہ اور کثیر طرفہ ذرائع سے بیرونی رقوم کی متوقع وصولی کے سبب زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری کے ساتھ جاری کھاتے کا خسارہ معتدل رہنے کی امید ہے ،۔

عمومی مہنگائی اکتوبر میں تقریباً 13.50 پوائنٹس (سال بسال) بڑھ گئی ، جس کا سبب بجلی کے نرخوں میں فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کا معمول پر آنا اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔

درآمدات میں یکدم کمی کے نتیجے میں ستمبر اور اکتوبر دونوں مہینوں میں جاری کھاتے کے خسارے میں خاطر خواہ اعتدال آیااور یہ بالترتیب 0.3 اور 0.6 ارب ڈالر پر آ گیا۔

بحیثیت مجموعی، مالی سال 23ء کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا، جو گذشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔

اس بہتری میں اہم کردار درآمدات میں وسیع البنیاد کمی نے ادا کیا جو 11.6 فیصد کمی کے ساتھ 20.6 ارب ڈالر پر آ گئیں جبکہ برآمدات 2.6 فیصد اضافے سے 9.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

دوسری جانب ترسیلات زر 8.6 فیصد کم ہوئیں اور 9.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس اعتدال اور اے ڈی بی کی جانب سے تازہ فنڈنگ کے باوجود بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں۔

رسد کے لحاظ سے بجلی کی پیداوار میں مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد (سال بسال) تک گر گئی۔

اہم خبریں سے مزید