• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنرل عاصم منیر کی سمری پرصدر مملکت نے دستخط کر دئیے ۔جنرل قمر جاوید باجوہ ابھی چند دن آرمی چیف ہی ہیں مگر ان کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی ۔انہیں ابھی سےایک ریٹائرڈ جنرل کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔سو آج کالم ان کے نام ۔بحیثیت آرمی چیف ان کے فیصلے خاصے متنازعہ رہے۔انہیں یقیناً خوداس بات کا ادراک ہوگا ۔انہوں نے جو بھی کیا اپنی طرف سے توبہتری کےلئے کیا۔باقی کسے خبر تھی کہ آسمانوں پر کیا طے پا چکاہے ۔بہر حال یہ بات بھی کچھ کم نہیں کہ انہوں نے اعلیٰ ظرفی سےکام لیتے ہوئے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ۔ملازمت کے آخری دنوں میں سہی یہ بھی مان لیا کہ 70 برس سے فوج کی سیاست میں مداخلت رہی ہے جو کہ نہ صرف غیرآئینی ہے بلکہ اس سے فوج تنقید کی زد میں بھی آتی رہی ہےمگر اپنی تقریر میں بہت سی باتیں تاریخی حقائق کے خلاف بھی کیں۔ انہوں نے بالخصوص یہ کہا کہ ’’سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔‘‘یہ بات درست نہیں کیونکہ اس وقت ملک میں سیاسی نہیں عسکری حکومت تھی ۔ اس لئے اسے سیاست دانوں کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا۔ سقوط ڈھاکہ صریحاً عسکری بزرجمہروں کی غلط پلاننگ کا نتیجہ تھا،جس کی بنیاد اس وقت پڑی تھی جب ایک جنرل نے ووٹ کے تناسب میں ڈنڈی ماری اورمشرقی پاکستان میں رہنے والوں کے تین ووٹ دو ووٹ شمار ہونے لگے۔ دراصل پاکستان میں برسوں سے ڈاکٹرز انجینئر بنے ہوئے ہیں اور انجینئر وں سے مریضوں کا علاج کرایا جارہا ہے ۔خالد مسعود خان نے ایک نظم کہی تھی ۔یاد نہیں ہے مگر اس کا مفہوم یہ تھا کہ سوئی کے ناکے میں دھاگا ڈالنے کی ملازمت پرایک اندھا رکھ لیا گیا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔ غالبؔ نے کہا تھا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

سیاست میں مداخلت سب سے پہلے جنرل ایوب نےکی ، پھریحییٰ خان نےکی ،پھر جنرل ضیا نے کی، آخری طالع آزما پرویز مشرف تھے۔ان کی اپنی قسمتیں تو جاگ گئیں مگر قوم کی قسمت سو گئی ۔کہنے کا مطلب ہے کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار سیاست دان نہیں ،یہی طالع آزما ہیں۔ان طالع آزمائوں کے خلاف کبھی کسی عدالت نے فیصلہ دینے کی کوشش کی بھی تو نادیدہ ہاتھوں نے انہیں روک لیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو کچھ کہا یا اس سے پہلے آئی ایس آئی کے چیف نے جو پریس کانفرنس کی۔ اسے بھی اگرچہ سیاسی عمل میں مداخلت قرار دیا گیا مگر کہاں مارشل لا اور کہاں ذرا سی دراندازی ؟میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی کشادہ دلی ہے کہ انہوں نے غلطی تسلیم کرلی وگرنہ آج سے پہلے کبھی عسکری اداروں کی طرف سے اپنی غلطی تسلیم کرنے کا کوئی واقعہ ہمیں اپنی تاریخ میں دکھائی نہیں دیتامگر انہوں نے جو سیاسی باتیں کی ہیں ، کاش نہ کرتے ۔ خاص طور پرعمران خان کے متعلق غیر متعلقہ باتیں نہ کرتےتو ممکن تھا عوام کے زخموں پرکسی حد تک مرہم رکھا جاتا۔جہاں تک بہادر سپاہیوں کی قربانیوں کا تعلق ہے تو پورا پاکستان ان کی عظمتوں کو سلام پیش کرتا ہے مگر وہ چند لوگ جنہوں نے شوقِ اقتدار میںفوج کی عزت خراب کی ۔ ان کے حق میں قوم کیسے ہو سکتی ہے؟یہ بات کون بھول سکتا ہے کہ جب سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس کوپرویز مشرف نے زبردستی نکالا تو پوری قوم باہر نکل آئی ۔اب عمران خان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ۔عمران خان کو جب اقتدار سے باہر نکالا گیا تو پوری قوم گھروں سے باہر آگئی ۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کردیا کہ کس کے کہنے پر آدھی رات کو عدالتیں کھول دی گئیں؟کس کے کہنے پر ایم این ایز کو گرفتارکرنے کےلئے پولیس اور رینجرز کی گاڑیاں اسمبلی کے باہر پہنچ گئیں؟ یہ حکم کہاں سے آیا تھاکیونکہ اس وقت پاکستان کا وزیر اعظم عمران خان تھا۔

سچ یہی ہے پاکستانی قوم نہ تواپنی فوج کے خلاف ہے نہ ہو سکتی ہے۔ہاں ان کے ضرور خلاف ہو چکی ہے جو رات کے اندھیرے میں آئین شکنی کرتے ہیں اور پکڑے جانے پر بھی تسلیم نہیں کرتے ۔بہر حال لوگ پوچھتے ہیں کہ جس ملک میں سابق وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج نہ ہو سکے وہاں کسی غریب کو کیسے انصاف مل سکتاہے۔ میرا یہ سوال نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ہے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہدا کی تقریب میں آخری تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’فوج کا بنیادی کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر پاکستانی فوج اپنی استعداد سے بڑھ کر قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے‘‘۔ یہ جو استعداد سے بڑھ کر خدمت کرنے کا جذبہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اکثر دیکھنے کو ملتا ہے،آئینی اور قانونی طور پر جرم ہے ۔ جنرل عاصم منیر سے درخواست ہے کہ اس جرم پر بھی تھوڑی سی توجہ دیجئے گا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’’چند حلقوں نے فوج کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور غیر شائستہ زبان استعمال کی‘‘۔یہ بات بھی غلط ہے تنقید فوج کی پالیسیوں پر نہیں جنرل باجوہ پر ہوئی ۔ اس مداخلت پر ہوئی جسے وہ تسلیم کرچکے ہیں ۔اب یہ بات عوام سمجھ چکے ہیں ۔پاکستان کی سب سے مقبول سیاسی پارٹی کو ایک جتھہ کہنت کا حق کسی سرکاری ملازم کے پاس نہیں۔افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر جتنی پوسٹیں لگی ہیں، میں ان سب کی مذمت کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا مگر کسی آرمی چیف کے خلاف لگنے والی پوسٹ کو افواج پاکستان کے خلاف پوسٹ قرار دینابھی تو کوئی انصاف نہیں ۔ میں نے کالم کا عنوان رکھا ہے ’’الوداع اے ماہتاب ِ جادواں الوداع۔ ماہتاب قمر کو کہتے ہیں اور جاوداں جاوید ہوتا ہے یعنی الوداع جنرل قمر جاوید الوداع!

تازہ ترین