• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مدثر اعجاز، لاہور

جوں جوں بچّے کی عُمر بڑھتی ہے، اُس کی سوچ اور عادات میں بھی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں، لیکن زندگی کا چاہےکوئی بھی دَور ہو بچپن، لڑکپن یا جوانی بچّے کا آئیڈیل اُس کا باپ ہی رہتا ہے۔ خواہ وہ اس بات کا اظہار کرے، نہ کرے، مگر شعوری و لاشعوری طور پر اپنے باپ جیسی عادات، رہن سہن اپنانے کی کوشش ضرورکرتا ہے۔ لگ بھگ ہر خاندان میں باپ کو ایک ایسے ستون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جس پر پورے خاندانی نظام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، جب کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں والد کے بنیادی کردار کی اہمیت سے بھی کسی صُورت انکار ممکن نہیں۔

گرچہ وقت کے ساتھ ہمارے معاملات مسائل، ترجیحات میں تغیّرو تبدّل معمول کی بات ہے، لیکن اچھے اخلاق و اعلیٰ اقدار کی روایات کم و بیش ہر دَور میں ایک جیسی رہی ہیں۔ ہرزمانےمیں دانش مند باپ اپنے بیٹوں کو اپنی روایات سے آگاہ کرتے رہے۔ تاریخ میں بیٹوں کو کی گئی کچھ پدرانہ نصیحتیں بہت مشہور ہیں، جو آج بھی اُتنی ہی قابلِ عمل ہیں، جتنی اپنے دَور میں تصوّر کی جاتی تھیں۔ حضرت لقمان کا ذکر قرآنِ پاک کی سورۂ لقمان میں آیا ہے۔آپ ایک دانا اور اللہ سے بہت محبّت کرنے والے انسان تھے۔آپ کا ایمان بہت مضبوط تھا۔ قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی کچھ نصیحتیں موجود ہیں، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کیں۔ 

یہ نصیحتیں انتہائی جامع اور پُراثر ہیں، جنہیں ’’معاشرتی آئین بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ان سے ہر زمانے کا انسان مستفید ہو سکتا ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو پہلی نصیحت کی، وہ اللہ کی وحدانیت پرمکمل یقین کی ہدایت تھی ۔ 

گویا کسی انسان کی کردار سازی کی پہلی شرط یہی ہے کہ اُسےاللہ کی وحدانیت پر مکمل یقین ہو۔وہ جانتا ہو کہ اُس ذاتِ بابرکت کو گزری ہوئی اور آنے والی ہر بات کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی انسان کی حاجت رَوی نہیں کرسکتا۔ اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا، وہ دُنیا و آخرت میں رسوا ہی ہوگا۔ حضرت لقمان کی یہ نصیحت در حقیقت وہ اہم ترین نقطہ ہے، جسے سمجھنے اور اپنا لینے کے بعد انسانی کردار میں ’’توکل علی اللہ‘‘ جیسی صفت پیدا ہوجاتی ہیں اور درحقیقت یہی صفت ایک مثالی معاشرے کی بنیاد ہے کہ ہمارا آدھا دین توکل علی اللہ اور باقی آدھا دین رجوع الی اللہ سے عبارت ہے۔

دوسری نصیحت والدین سے اچھے سلوک سے متعلق تھی۔ بلاشبہ ایک خوش حال معاشرے کا قیام، والدین سےحُسنِ سلوک کے بغیر محال ہے۔ ہمیں اپنے والدین کے سامنے اُف تک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بڑھاپے میں اُن کے ساتھ اُسی طرح محبّت و الفت کا برتاؤ کرنے کو کہا گیا ہے، جیسا کہ ہمارے بچپن میں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔

تیسری نصیحت میں کہا گیا کہ ’’اللہ تعالی بڑی حکمت والا اور ہر چیز سے واقف ہے۔ جو ہو چُکا اور جو ہونے والا ہے، وہ سب جانتا ہے۔‘‘ اور اگرہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن سے خُوب واقف ہے۔ ہم کوئی کام سات پردوں میں چُھپ کر کریں یا سرِ عام، اللہ تعالی سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا اور ہمیں روزِ قیامت اپنے ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل کا حساب دینا ہوگا، تو زندگی میں اِک اِک قدم سوچ سمجھ کر اُٹھانا آپ ہی آپ لازم ہوجائے گا۔ 

چوتھی نصیحت نماز سے متعلق کی۔ نماز جہاں ہمیں اپنے خالق کے حضور جُھکنے کا موقع عطا کرتی ہے، وہیں مساجد میں مسلمانوں کا اجتماع ایک دوسرے کے احوال سے واقفیت کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ پھر نماز انسان کو بُرائی اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ گویا نماز کے فوائد نہ صرف ہماری انفرادی زندگیوں میں نظر آتے ہیں، بلکہ بالواسطہ پورے معاشرے پر منطبق ہوتے ہیں۔ 

پانچویں نصیحت، نیکی کی تلقین اور برائی کو روکنے سے متعلق کی۔معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے خاندان اور حلقۂ احباب میں بُرائی روکنے اور نیکی پھیلانے کی تلقین کرے اور جب تمام افراد اپنے اپنے طور پر اس نصیحت پر عمل کریں گے، تو یقیناً اس کے مثبت اثرات پورے معاشرے پر مرتّب ہوں گے۔ 

چھٹی نصیحت صبر کی تلقین تھی۔ بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے کہ صابرین کے برعکس خواہشوں کے غلام افراد اپنی تسکین کے لیے بہت سے ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں اور نتیجتاً معاشرے میں شدید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو عاجزی و انکساری اور میانہ روی کی بھی نصیحت فرمائی اور یہ وہ تمام خُوبیاں ہیں، جو کسی بھی انسان کے لیے گویا فلاح و کام یابی کا زینہ ہیں۔ نیز، انہوں نے اپنے بیٹے کو دھیمی آواز میں گفتگو کرنے کی بھی نصیحت کی۔

شاعرِمشرق، علّامہ اقبال نے اپنے کلام میں تمام طبقوں سے بڑھ کر نوجوانانِ ملّت کی اصلاح پر خصوصی توجّہ دی۔ وہ جب اپنے بیٹے جاوید اقبال کو مخاطب کرتے، تو بھی اُن کی مُراد ملّت کے تمام نوجوان ہی ہوتے۔ جاوید اقبال کے ایک خط کے جواب میں لکھے گئےعلّامہ اقبال کے اشعار ہر دَور میں نوجوانانِ ملت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔’’ارمغان حجاز‘‘ میں شامل نظم’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ میں علّامہ اقبال ایک بوڑھے بلوچ کی زبانی، اُمّت کے نوجوانوں کو پندونصائح میں گویا جہاں بانی کا دستور وشعور دیتے ہیں۔

جب کہ وہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں کی گئی چند نصیحیتوں کا مفہوم ہے۔’’اللہ تعالی کی وحدانیت پر یقین رکھنے کا مطلب ہے کہ دُنیا میں کسی اور کے آگے نہ جُھکا جائے اور کلمۂ طیّبہ پر دِل کی گہرائی سے ایمان لایا جائے۔ بے شک، لاالہ ایک کاری ضرب ہے۔ مال و دولت، دُنیا عارضی چیزیں ہیں، آج کا مسلمان اپنا دین و ایمان کوڑیوں کے مول بیچ رہا ہے، عبادت بے روح ہوچُکی ہے۔ سو، ان تمام بُرائیوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے۔

انسان کی عظمت پر یقین رکھو، تمام انسانوں کا خالق ایک ہی ہے اور اللہ سے محبّت کی بنیاد مخلوقِ خدا سے محبّت پر ہے، اس لیے کسی انسان کو حقیر نہ جانو۔دینِ اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ امارت میں بھی غربت کا رویّہ اختیار کرو، کیوں کہ درویش کو دُنیا میں کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے اور غم گین مت رہا کرو کہ زیادہ غم زدہ رہنا عُمر گھٹاتا ہے اور ایمان کم زور کرتا ہے۔

تاریخ میں امریکی صدر ابراہم لنکن کی بھی کچھ نصیحتیں مشہور ہیں، جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لنکن نے اپنے بیٹے کے استاد کو ایک خط کے ذریعے اپنے بیٹے کی تربیت کے ضمن میں کیں۔ بعض مؤرخین کے نزدیک یہ خط محض ابراہم لنکن سے منسوب ہے، درحقیقت اس کا خالق کوئی غیر معروف انسان ہے، لیکن بہرحال، خط کے مندرجات بہت دِل چسپ ہیں۔’’استادِ محترم! میرے بیٹے کو یہ ضرور بتائیں کہ زندگی جنگوں ،حادثوں اور غموں سے بَھر پور ہے اُور ان تمام مشکلات سے عہدہ برا ہونے کے لیے اُسے یقینِ محکم، ہمّت اور محبّت جیسے جذبات کی ضرورت ہے۔

اُسے یہ سمجھائیں کہ دُنیا کے تمام انسان سچّے ہیں، نہ ہی انصاف پسند،مگر قدرت نے ہر بُرے انسان کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی اچھا انسان ضرور پیدا کیا ہے۔ بعض سیاست دان مُلک و قوم سے مخلص ہوتے اور بعض نہیں۔ بعض افراد کم زوروں کا استحصال کرتے ہیں، مگر کچھ بہادر اور جی دار لوگ کم زروں کا بَھرپور ساتھ بھی دیتے ہیں۔ میرے بیٹے کو یہ بھی بتائیں کہ زمین پر پڑے ہزاروں روپوں سے وہ چند روپے بہت بہتر ہیں، جو اپنے ہاتھ سے کمائے جائیں ۔ اُسے یہ بھی سمجھا دیں کہ نقل کرکے پاس ہونے سے زیادہ بہتر فیل ہوجانا ہے اور محنت کرنے کے باوجود ہار جانے سے عزّت کم نہیں ہوتی۔

استادِ محترم! میرے بیٹے کو یہ بھی بتائیں کہ جو اُس کی عزّت کرے، جواباً اُس کی بھی عزّت کی جائے۔کم زور لوگوں کے ساتھ سختی نامناسب ہے۔اپنی طاقت اور دولت پر غرور بے معنی ہے۔ زندگی میں کبھی ہنسنا تو کبھی رونا پڑتا ہے ۔رونے سے عزّت کم نہیں ہوتی، مگر اپنی خوشی کا ضرورت سے زیادہ اظہار نامناسب ہے۔ اُسے کتابوں کے علاوہ قدرت کے حسین نظاروں، پرندوں، بہتے چشموں اور دریاؤں سے محبّت کرنا بھی سکھائیں۔استادِ مکرّم! میرے بیٹے کے خیالات کو اتنا پختہ کردیں کہ وہ بَھرے مجمعے میں اپنی بات کہنے اور منوانے کی طاقت رکھتا ہو۔

اُسے یہ بھی سمجھا دیں کہ بے شک وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو بہت منہگے داموں بیچے، مگر اپنے دِل، خیالات اور روح پر کبھی برائے فروخت کی تختی نہ لگائے۔ اُسے عاجزی و انکساری اور صبرو تحمّل کی عادات اپنانے کی تلقین کریں۔ اُس کی صلاحیتوں کی جانچ میں اُس کی مدد کریں، کیوں کہ اپنی ذات پر مکمل یقین کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کرنے کے قابل ہوسکتا ہے۔‘‘

سنڈے میگزین سے مزید