• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاؤس آف لارڈز کشمیر ڈبیٹ، حکومتی ریسپانس …!

خیال تازہ … شہزاد علی
چند روز قبل لوٹن سے تعلق رکھنے والے ہاوس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ قربان حسین ستارہ قائداعظم نے ہاوس آف لارڈز میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے مسلسل کی جانے والی حقوق انسانی کی شدید پائمالیوں کے سلگتے ہوئے مسئلہ کو اٹھایا۔ لارڈ قربان حسین کی کشمیر پر ڈبیٹ سے متعلق خبر اور ان کی تقریر کا مکمل متن جنگ میں شائع ہوچکا ہے۔ اس اہم موقع پر برطانیہ اور یورپ میں متحرک نوجوان کشمیری صدر تحریک کشمیر برطانیہ فہیم کیانی اور پاکستان سے تشریف لائے ہوئے صحافی ظفر ملک بھی بطور مبصر شریک تھے۔ فہیم کیانی کا تبصرہ بھی جنگ میں چھپ چکا ہے۔ اب برمنگھم میں قائم آل پارٹیز کشمیر رابطہ کمیٹی لارڈ قربان حسین کی کشمیر پر اس کاوش کو سراہنے کے لیے ایک تقریب کا بھی انعقاد کر رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے ۔ کشمیر سے متعلق تمام تنظیموں کے علاوہ کشمیر پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ لارڈ قربان حسین سے انگیج ہوں جو کہ بلا مبالغہ ہاوس آف لارڈز میں کشمیری عوام کی بے باک ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ لارڈ قربان حسین چوہدری صرف یہی نہیں کہ وہ خود کشمیری ہیں بلکہ ان کی کشمیر پر طویل جدوجہد تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ پھر ہاوس آف لارڈز میں ان کی موجودگی سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی بھی کشمیر پر بہترین ترجمانی ہو رہی ہے۔ اب آتے ہیں لارڈ قربان حسین کی معروضات کے جواب میں ہاوس آف لارڈز میں حکومت برطانیہ کا ردعمل:یہ ردعمل کنزرویٹو پارٹی سے متعلق متعلقہ وزیر لارڈ طارق احمد نے دیا ۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ متعلقہ وزیر بھی پاکستانی ہیں جبکہ اس وقت برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک ہیں جن کے آباو و اجداد بھی پاکستانی سرزمین سے ہیں اور بھارت کے ساتھ جو ان کا رشتہ اور تعلق ہے وہ بھی واضح ہے۔ برطانیہ میں بسنے والے کشمیری، پاکستانی اور بھارتی باشندے فطری طور پر ان شخصیات کے پس منظر سے تعلق جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں تاہم کشمیری کمیونٹی جو مسئلہ کشمیر کے باعث پاکستان، بھارت کے علاوہ برطانوی حکومت سے بھی رابطے میں رہتی ہے کیونکہ برطانیہ نے ہی یہ مسئلہ تقسیم ہند کے وقت حل طلب چھوڑا تھا ، کشمیری بجا طور پر برطانیہ کے کشمیر کے مسئلے پر جاندار کردار کے متمنی ہیں جبکہ سابقہ روایت کے مطابق ہی لارڈ طارق احمد نے کشمیر پر روایتی برطانوی موقف ہی بیان کیا کہ برطانیہ کا موقف بالکل پہلے جیسا ہے: یہ ہندوستان اور پاکستان کیلئے ہے کہ وہ کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پائیدار سیاسی حل تلاش کریں۔ یہ برطانیہ کیلئے نہیں ہے کہ وہ کوئی حل تجویز کرے یا ثالث کے طور پر کام کرے۔ یہ موقف نیا نہیں ہے۔ یہ متواتر برطانوی حکومتوں کا مستقل موقف رہا ہے۔۔ اس روایتی موقف پر کشمیری ہی نہیں، کشمیری عوام کی جدوجہد میں معاون پاکستانی کمیونٹی کو بھی مایوسی ہوتی ہے _ لارڈ طارق احمد کا کہنا تھا،کہ ہم نے گزشتہ سال فروری میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ جنگ ​​بندی کی تجدید کا خیرمقدم کیا ہے اور ہم دونوں فریقوں (پاکستان اور بھارت) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ علاقائی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے دیرپا سفارتی حل تلاش کریں۔ لیکن کشمیری پاکستانی نقطہ نظر سے یہ تو روایتی برطانوی موقف ہے _ کشمیری عوام پر جو دن بدن ظلم بڑھ رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ بات اس روایتی موقف سے اب آگے بڑھے تاہم لارڈ طارق احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب لوگ اکثر مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں، وہ ہمیشہ ان چیلنجوں کو دیکھتے ہیں جن کا برطانیہ کو سامنا ہے اور وہ کردار جو برطانیہ موقع اور امید کے حوالے سے ادا کر سکتا ہے تاہم انہوں نے لارڈ قربان حسین کی طرف سے بحث شروع کرانے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ لارڈ حسین کو یقین دلاتے ہیں کہ ہندوستان کی نوعیت اور وسعت کی وجہ سے برطانوی ہائی کمیشن، وزراء اور ڈپٹی ہائی کمیشن کے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے جو ایک وسیع نیٹ ورک ہے اس ذریعے انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں _ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ درحقیقت، ہم نے حال ہی میں سنا ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ البتہ یہ بھی کہا کہ ہماری اقدار اور ہماری متحرک جمہوریتیں یوکے _ انڈیا جامع اسٹریٹجک شراکت داری اور مستقبل کے تعلقات کیلئے ہمارے 2030 روڈ میپ کے مرکز میں ہیں۔ اس روڈ میپ کا جس کا کئی نوبل لارڈز نے اشارہ کیا، ہمارے تعاون کی رہنمائی کرتا ہے اور ہمارے کثیر جہتی تعلقات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ہم نے جمہوری اصولوں اور اصولوں کی اہمیت اور عالمی انسانی حقوق کے احترام میں اپنا مشترکہ عقیدہ قائم کیا میرے درست معزز دوست سیکرٹری خارجہ نے انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ لارڈ طارق احمد کا کہنا تھا کہ مائی لارڈز، میں تمام نوبل لارڈز کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کے تعاون سے جو بہت بصیرت انگیز بحث رہی ہے۔ میں اٹھائے گئے زیادہ تر نکات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میں اس بحث کو پیش کرنے کیلئے لارڈ قربان حسین کا شکریہ ادا کرنے میں دوسروں کے ساتھ شامل ہوں۔ ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ وہ عظیم لارڈ کولنز سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں برطانیہ میں جب بھی ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی دیکھتے ہیں، چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں ان پر بات کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم سب کو سب سے بڑا چیلنج اس وقت درپیش ہوتا ہے جب ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھڑے ہوتے ہیں جو ہماری اپنی اقدار، ذاتی عقائد یا مذہب کی نہیں بلکہ دوسروں کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہی اصل امتحان ہے۔ "میں اکثر کہتا ہوں کہ یونائیٹڈ کنگڈم کے لیے انسانی حقوق کا وزیر بننا میرے مختصر بیان کا سب سے قابل فخر حصہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ، سب سے زیادہ چیلنجنگ بھی ہے۔"۔ جیسا کہ ہم نے بار بار واضح کیا ہے، بشمول اپنے مربوط جائزے میں کھلے معاشروں اور انسانی حقوق کو برطانیہ کے لیے ترجیحات میں رہنا چاہیے اور رہنا چاہیے، جیسا کہ نوبل لارڈز، لارڈ پورویس اور لارڈ کولنز نے بجا طور پر اشارہ کیا ہے۔ ہماری سلامتی اور خوشحالی ایک ایسی دنیا کے ذریعے بہترین طور پر پیش کی جاتی ہے جہاں جمہوری معاشرے پنپتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے اور درحقیقت اسے تقویت ملتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اپنے ملک کے جامع اداروں، حکومتوں، بھرپور تاریخ اور آئین پر بجا طور پر فخر ہے۔ یہ ضروری ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ جب ہم انسانی حقوق کے مسئلے سے رجوع کرتے ہیں اور اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ دنیا میں کہیں بھی ہو، ہمیں چیلنجز کی عینک لگانی چاہیے اور جہاں کوئی ملک اس وقت انسانی حقوق کے سفر پر گامزن ہے جیسا کہ ہم نے اپنے عظیم دوست لارڈ رینجر سے پہلے سنا تھا کہ 105 سال پہلے اس کمرے میں کون ہوتا؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو ہمارا اپنا ملک ایک سفر پر ہے۔ اس لیے یہ درست ہے کہ ہم کسی ملک کے سفر پر نظر ڈالیں بلکہ اس کے اداروں اور آئین اور اس کے تحفظات کو بھی دیکھیں۔ جس طرح ہمیں یہاں برطانیہ میں اپنی جمہوریت اور اداروں پر فخر ہے، اسی طرح میں انسانی حقوق کے معاملے سمیت حکومت ہند کے ساتھ براہ راست تعلق سے جانتا ہوں کہ وہ انسانی حقوق کے محافظ اور محافظ کے طور پر اپنے آئین اور اداروں پر کتنا فخر کرتے ہیں۔ حکومتی وزیر لارڈ طارق احمد کا لارڈ قربان حسین سمیت مختلف لارڈز کے سوالات کے جواب میں یہ بھی کہنا تھا کہ جب ہم انسانی حقوق کو بلند کرتے ہیں تو ہم اسے تعمیری اور واضح انداز میں کرتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات کی مضبوطی ہمیں ایسا کرنے کی اجازت دیتی ہےہم جانتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کی طویل روایات ہیں، لیکن ہم ہندوستان کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے آئین میں دی گئی تمام آزادیوں اور حقوق کو برقرار رکھے، جیسا کہ ہماری سمیت تمام جمہوریتوں کے ساتھ ہے۔ درحقیقت، یہ وہ تجزیہ اور نکتہ ہے جس کی مجھے توقع ہے کہ یہاں برطانیہ میں ہماری اپنی اقدار اور انسانی حقوق کے بارے میں پیش کیا جائے گا۔ برطانیہ ہندوستان کے ساتھ انسانی حقوق کے متعدد مسائل پر بات چیت کرتا ہے۔ بلاشبہ، ہم ہندوستان بھر میں انسانی حقوق کی صورت حال کی نوعیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جیسا کہ میری عظیم دوست لیڈی ورما نے اشارہ کیا، انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بہت سے مذاہب اور ثقافتیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر میں غلط ہوں تو میں اس کی تصحیح کروں گا، لیکن میرے خیال میں اب بھی ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد پاکستان یا بنگلہ دیش سے زیادہ ہے۔ یہ مذہب کی بات کرنے پر قوم کے بھرپور تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ عبادت گاہوں کو آئینی تحفظات ہیں۔ درحقیقت، عبادت گاہوں کیلئے 1989کا آئینی تحفظ بہت مضبوطی سے کھڑا ہے۔ لارڈ قربان حسین نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر گروپوں کا ذکر کیا۔ صرف اس ہفتے کے شروع میں میں نے انسانی حقوق کے گروپوں کے ساتھ اپنی باقاعدہ مصروفیت کے حصے کے طور پر ملاقات کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے تحفظات، جو بعض اوقات مخصوص مسائل پر نجی طور پر نشر کیے جاتے ہیں، کو اجاگر کیا جا سکتا ہے تاکہ ہم انہیں دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ تعمیری انداز میں اٹھا سکیں، بشمول بھارتی حکومت۔ حال ہی میں میں نے ہندوستان کے ہائی کمشنر سے بات کی، انسانی حقوق اس مکالمے کا باقاعدہ حصہ ہیں جیسا کہ آج کی بحث نے ظاہر کیا ہے، یہ واضح ہے کہ کشمیر بہت سے لوگوں کے دلوں کے قریب موضوع ہے۔ درحقیقت، عظیم لارڈ لارڈ قربان حسین نے کنٹرول لائن کے پار اپنے تعلقات کے بارے میں بہت ذاتی طور پر بات بھی کی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہندوستانی ورثے کے 1.7ملین برطانوی شہری یہاں برطانیہ میں مقیم ہیں، اور اتنی ہی تعداد پاکستانی ورثے سے متعلق ہے۔ جو شاید دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کی مضبوط، پابند نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان برطانیہ کے دیرینہ اور اہم دوست ہیں، اور ہمارے دونوں ممالک کے ساتھ خاص طور پر ڈائاسپورا کمیونٹیز کے ذریعے اہم روابط ہیں۔ حکومت اس صورت حال اور لارڈ حسین کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل کو بہت سنجیدگی سے لے۔ انہوں نے قراردادوں کے بارے میں بات کی، جیسا کہ نوبل لارڈ، لارڈ کولنز نے کیا۔ ہمارا موقف بالکل پہلے جیسا ہے: یہ ہندوستان اور پاکستان کے لیے ہے کہ وہ کشمیری عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پائیدار سیاسی حل تلاش کریں۔ یہ برطانیہ کے لیے نہیں ہے کہ وہ کوئی حل تجویز کرے یا ثالث کے طور پر کام کرے_ انہوں نے کرتار پور راہداری کی مثال بھی پیش کی یہ دو حکومتوں کے درمیان صحیح وجوہات کی بنا پر کچھ کرنے کے صحیح ارادے سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لارڈ حسین نے مذاکرات میں انسانی حقوق اور ہندوستان کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات کی۔ جب ہم تمام تجارتی تعلقات کے بارے میں فیصلے کریں گے تو حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داریاں اور وعدے، بشمول انسانی حقوق، سب سے اہم رہیں گے۔ ہم یہ بھی واضح ہیں کہ زیادہ تجارت کارکنوں یا ماحول کی قیمت پر نہیں آئے گی۔ تجارتی بات چیت جاری رہنے کے دوران، میں نوبل لارڈز کو یقین دلاتا ہوں کہ جب ہم اپنے روڈ میپ کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر بات کرتے ہیں، چاہے تجارت، سرمایہ کاری، تکنیکی تعاون یا ہندوستان اور برطانیہ میں زندگی اور معاش کو بہتر بنانے پر، زندگی اور معاش کا مسئلہ اندرونی طور پر ہے۔ انسانی حقوق کے پورے تصور سے منسلک ہے۔ ہم ایک آزاد تجارتی معاہدے پر عمل پیرا ہیں۔ لارڈ حسین نے انسانی حقوق کی رپورٹ پر کچھ مخصوص مسائل اٹھائے۔ مجھے فخر ہے کہ ہم اس مسئلے پر رپورٹیں تیار کرتے ہیں۔ لارڈ حسین نے ہندوستان سمیت دیگر ممالک کے بارے میں پوچھا۔ اس بارے میں فیصلہ کہ آیا اس رپورٹ میں کسی ملک کو نامزد کیا گیا ہے میں اس نکتے پر زور دیتا ہوں کہ جہاں ہمارے خدشات ہیں، ہم انہیں اٹھائیں گے۔ آخر میں ہم جناب لارڈ طارق صاحب اور باالخصوص وزیر اعظم رشی سوناک صاحب کی خدمت میں یہ گوش گزارش کرنا چائیں گے کہ اب کشمیر کے خطے کے بدنصیب لوگوں کو توقع ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے بات روایتی موقف سے آگے بڑھنی چاہیے _ آپ چائیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ آپ کو اس مسئلے پر برطانیہ کے کشمیری جو اس مسئلے کے فریق اول ہیں سے انگیج ہونا چاہیے اور آپ پر یہ واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان تو تسلسل سے کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دینے کا وعدہ ہی نہیں کرتا چلا آ رہا بلکہ دنیا کے ہر فورم پر پاکستان نے کشمیریوں کے اس مطالبے کو اٹھایا ہے یہ بھارت ہے جو خود اپنی اولین قیادت کے کشمیر پر وعدے کی خلاف ورزی کرتا چلا آ رہا ہے اور نہ صرف یہ کہ کشمیری عوام کے بنیادی حق آزادی کی نفی کر رہا ہے بلکہ آزادی مانگنے کی پاداش میں ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے حتیٰ کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی سلب کر دیے گئے ہیں۔
یورپ سے سے مزید