• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: میں نے اپنی مطلقہ کزن سے شاد ی کی، میری پہلی شادی ہے ، میری کزن میرے ساتھ بیس دن گزارنے کے بعد اپنے والدین کے ساتھ عمرے پر گئی ، واپس آتے ہی ایک دو دن بعد ناراض ہو کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور طرح طرح کے الزامات لگائے، چوں کہ میں شہر سے باہر ملازمت کرتا ہوں، اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے والدین کے ساتھ میرے گھر آئی اور اپنا سارا سامان اٹھا کر لے گئی، جس کی خبر مجھے میرے بھائی نے بعد میں دی، اب تقریبًا دو سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور میں کئی بار اس کے گھر منانے کے لیے بھی جا چکا ہوں، مگر اس کے والدین اسے مجھ سے ملنے بھی نہیں دیتے، نہ میری بیوی مجھ سے رابطہ کرتی ہے۔ 

مجھے ابھی تک ناراضی کی وجہ بھی پتہ نہیں چل سکی اور نہ ہی وہ سیدھی طرح بات کرتے ہیں ، اس صورت حال کو دیکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتی، لیکن دو ٹوک الفاظ میں مجھے طلاق یا خلع کا بھی نہیں کہتی۔ میں نے اسے ہر طرح منانے کی کوشش بھی کرلی، لیکن کوئی حل نظر نہیں آتا، اسے طلاق دینے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہوجائے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں بیوی کو کتنا وقت دیا جائے کہ بیوی راہِ راست پر آجائے، ورنہ طلاق دے دی جائے؟ 

جواب: بیوی یا اس کے والدین کی ناراضی کے اسباب کیا ہیں، معلوم کیجیے۔اگر جائز وجوہات ہوں تو انہیں دور کیجیے۔ بیوی کے والدین کا آپ کواپنی اہلیہ سے رابطہ نہ کرنے دینا نہایت برا ہے۔ اگر براہِ راست رابطہ ممکن نہ ہو تو کسی ذریعے اور واسطے سے کوشش کیجیے اور بہتر ہے کہ خاندان کے معززین کے ذریعے گھر بسانے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح کی کوششوں کے بعد بھی اگر معاملہ حل نہ ہو تو آپ دوسرا نکاح بھی کرسکتے ہیں اور آخری چارہ کار کے طور پر طلاق بھی دے سکتے ہیں، طلاق دینے سے گناہ نہیں ہوگا، مگر تین طلاقیں ایک ساتھ ہرگز نہ دی جائیں۔