• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برِصغیر میں مسلمان بڑی تعداد میں ہیں۔ اِس عظیم حقیقت کے اہم پہلو حکیم الاُمت محمد اقبال نے خطبۂ الہ آباد میں بیان کئے تھے اور اُمتِ مسلمہ کا ایک وسیع تصوّر پیش کیا تھا۔ پاکستان کی سرحد ایران سے ملتی تھی اور اُس نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ سعودی عرب سے ہندوستان کے نوابوں کے دیرینہ مراسم تھے کہ اُس سرزمین پر حرمینِ شریفین واقع ہیں۔ قیامِ پاکستان کے چند برس بعد جب گورنرجنرل ملک غلام محمد سعودی عرب کے دورے پر گئے، تو وہاں کے حکمرانوں نے پاکستان ہاؤس کے لئے مسجدِ نبوی کے قریب جگہ دی۔ مولانا ظفر احمد انصاری جو آل انڈیا مسلم لیگ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے، اُن کے مفتیٔ اعظم فلسطین جناب امین الحسینی سے اچھے روابط تھے۔ اسی بنا پر جب قائدِاعظم لندن جاتے ہوئے قاہرہ رُکے اور مفتیٔ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو اُنہوں نے اُن کا زبردست خیرمقدم کیا ۔ قائدِاعظم نے اُنہیں پاکستان کی جدوجہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔

عالمِ اسلام برِصغیر پاک و ہند سے ڈاکٹر محمد اقبال، سیّد سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کے ذریعے واقف تھا۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریروں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو رہا تھا اور عالمِ اسلام کے علما اور عرب حکمران اُن کے دینی مرتبے سے اچھی طرح آشنا تھے، چنانچہ جب 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے پر فوجی عدالت نے اُنہیں سزائےموت سنائی، تو مسلم ملکوں کی طرف سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔ یہ اُسی عالمی احتجاج اور دَباؤ کا نتیجہ تھا کہ حکومت کو چند ہی روز بعد مولانا مودودی کی سزائےموت کو عمرقید میں تبدیل کرنا پڑا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب مصر کی اخوان المسلمون بھی سخت افتاد کی زد میں تھی جو عالمِ عرب میں اقامتِ دین کی دعوت پھیلا رہی تھی۔ اُس کے مرشدِ عام امام حسن البنّا قدرے انقلابی ذہن کے مالک تھے اور اُن کے ہاں یہ گنجائش موجود تھی کہ اسلامی انقلاب طاقت کے ذریعے بھی لایا جا سکتا ہے۔

مصر کے شاہ فاروق کی نااہلی اور بےتدبیری کے باعث عربوں کو اسرائیل کے ہاتھوں شکستِ فاش ہوئی اور کچھ ہی عرصے بعد مصری فوج نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی۔ بغاوت کی کمان اُن فوجی افسروں کے ہاتھ میں تھی جو اخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے، اُن میں جمال عبدالناصر بھی شامل تھا۔ اقتدار پہ پوری طرح گرفت مضبوط کرنے کے بعد اُس کے انقلاب نے اپنے ہی سرپرستوں کو کھانا شروع کردیا۔ مرشد عام جناب حسن البنّا شاہراۂ عام پر گولی مار کر شہید کر دیے گئے۔ بیس ہزار اَخوان کارکن گرفتار کر کے صحرائی علاقوں کی جیلوں میں ناقابلِ برداشت سزاؤں سے دوچار کر دیے گئے۔ لاتعداد اَخوانی مصر چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ سیّد قطب اور جسٹس عبدالقادر عودہ جیسے عظیم لوگ پھانسی پر لٹکا دیے گئے اور نہایت پاکیزہ کردار اِنسانوں پر وحشی کتے چھوڑ دیے گئے۔ روح کو لرزا دَینے والے مظالم کے خلاف جماعتِ اسلامی نے بڑی قوت سے آواز اٹھائی اور پوری دنیا میں اُن کے خلاف رائےعامہ ہموار کرنے کا فریضہ ادا کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف اخوان المسلمون کی قیادت کو جماعتِ اسلامی کی یہ بات سمجھ میں آ گئی کہ تبدیلی کا موزوں ترین راستہ تعلیم و تبلیغ، اخلاقِ عامہ کی تربیت اور پُرامن جمہوری جدوجہد سے وابستہ ہے۔

دورِ ابتلا کے بعد حالات کسی قدر معمول پر آئے، تو نہر سویز کو قومی تحویل میں لینے کا مرحلہ آ پہنچا۔ اُس میں جماعتِ اسلامی نے مصر کے برحق مؤقف کا ساتھ دیا اور برطانیہ و فرانس کے مصر پر حملے کی شدید مذمت کی۔ اُن دنوں ہمارے ایک ممتاز سیاست دان جناب حسین شہید سہروردی یہ راگ الاپ رہے تھے کہ صفر جمع صفر برابر ہے صفر۔ وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ عربوں کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ دریں اثنا عالمی رائےعامہ کے دباؤ میں امریکہ میدان میں کود پڑا اَور اُس کی فوجوں نے برطانیہ اور فرانس کی طاقت کچل ڈالی اور یوں مصر فتح یاب ہوا۔

اِسی دوران عراق میں خونیں انقلاب نے بادشاہت کا خاتمہ کر ڈالا۔ پاکستان معاہدۂ بغداد کا ایک اہم رکن تھا ،یہ معاہدہ فوجی انقلاب آنے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ آگے چل کر بغداد معاہدے کی جگہ سینٹونے لے لی جسے مولانا مودودی عالمی تناظر میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ شرقِ اوسط میں حالات بگڑتے چلے گئے۔ بیسویں صدی کے آخری دو عشروں میں حافظ الاسد شام کی فضائیہ کا سربراہ بن بیٹھا اور بعدازاں حکومت پر قابض ہو گیا۔ وہ تین عشروں تک شام کے عوام کی گردنوں پر مسلط رہا ۔ اُس کے بعد اُس کا بیٹا شام کا سربراہ بنا۔ 1984ء میں اخوان المسلمون نے شام کے اندر بعث پارٹی کی ذلت آمیز حکومت کے خلاف آواز اُٹھائی، تو اُس کے خلاف خونخوار آپریشن جاری رہا۔ شہر کھنڈر بن گئے ۔ عورتوں کی بڑے پیمانے پر عصمت دری ہوتی رہی۔پاکستان کے اخبارات کے علاوہ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی بھیانک مظالم کی تفصیلات فراہم کیں۔ خبریں نشر ہو جانے سے لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی اور شام پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اِس جدوجہد کے نتیجے میں اسلامی تحریکوں کے مابین رشتے مضبوط ہوئے اور اَہلِ ایمان کے عزم اور جوش میں اضافہ ہوتا گیا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی بالغ نظری اور حق گوئی کا اُس وقت جرأت مندانہ مظاہرہ ہوا جب شہنشاہ ایران نے امام خمینی کو ملک بدر کیا، تو مولانا نے ’’ماہنامہ ترجمان القرآن‘‘ میں اُس اقدام پر کڑی تنقید کی۔ اِس پر اُن کا ماہنامہ بند کر دیا گیا جبکہ مولانا کو شدید ٘مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی برسوں بعد جب ایران میں انقلاب آیا، تو نئی قیادت مولانا مودودی کی شکرگزار نظر آئی۔ مولانامسلم ملکوں کے معاملات میں حکومت سے ہٹ کر اپنا جداگانہ نقطۂ نظر رکھتے تھے اور عمر بھر اسی طریقِ کارپر عمل پیرا رہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین