• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں آئین بھی ہے، قانون بھی اور ملکی تحفظ کے عظیم ادارے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے ملک و قوم کو شدید عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے، جن کے ان دو کے علاوہ اور کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟ ایک یہ کہ یا تو ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کر دی جائے، وہ سیاہ و سفید کے مالک ہوں اور جو مرضی کریں کوئی پوچھنے کی جرأت کرنے والا نہ ہو۔ ملکی آئین و قانون کو موم کی ناک بنا کر رکھیں۔ دوسرا یہ کہ ملک میں شدید عدم استحکام پیدا ہو جائے۔ ادارے کمزور اور بدنام کئے جائیں۔ معاشی طور پر ملک کا دیوالیہ نکل جائے اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی سے تنگ آ کر عوام روٹی کے حصول کے لئے ایک دوسرے کی جان لینے کے لئے تیار ہوں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال اس قدر خراب ہو جائے کہ ملک دشمن طاقتوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے اور ایک بار پھر ملک میں دہشت گردی کا دور دورہ ہو۔ یعنی ہم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ کیا اس میں کوئی شک و شبہ ہے کہ گزشتہ سات ماہ میں نہ ہی ملک کے اہم اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کو بخشا گیا نہ معیشت کی بہتری کے لئے کوششوں کو کامیاب ہونے دیا گیا۔ کروڑوں سیلاب زدگان کے نام پر اربوں روپے اکٹھا کرنے والوں نے ان لاچاروں کو اس رقم میں سے ایک روپیہ تک نہیں دیا بلکہ بیرون ملک سے سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے عطیات دینے والوں کو بھی روکنے کی انتہائی مذموم کوشش کی گئی۔ اسی دوران ہیلی کاپٹر حادثے میں جام شہادت نوش کرنے والے اعلیٰ فوجی افسروں اور جوانوں کے خلاف انتہائی گھٹیا سوشل میڈیا مہم بڑی بے شرمی سے چلائی گئی۔ آئی ایم ایف سے خود معاہدہ کیا اور جب اقتدار کا سورج ڈوبتا دیکھا تو خود ہی اس معاہدے کی خلاف ورزی کر کے ملک و قوم کے لئے شدید مشکلات پیدا کی گئیں اور جب اسی معاہدے کو دوبارہ مؤثر بحال کروانے کی کوششیں شروع ہوئیں تو ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی مذموم حرکت کی گئی۔ اہم ترین اداروں اور اعلیٰ عسکری قیادت کے خلاف مکروہ زبان اور دشنام طرازی محض اس لئے شروع کی گئی کہ وہ ان کےغیر آئینی اقدامات میں سہولت کار اور ساتھی نہیں بنے۔ دوست ممالک سے تعلقات جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو مزید نقصان اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جلسے جلوسوں اور منفی پروپیگنڈے پر مبنی بیانات سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرکےعوامی و ریاستی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ دھونس اور دھمکیوں سے اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ ایک اعلیٰ اور محبِ وطن فوجی افسر کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی شرمناک کوشش کی گئی۔ الیکشن کمیشن پر بے بنیاد الزامات اور اس کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے دندناتے پھر رہے ہیں لیکن اب برداشت کا کوزہ بھی بھر چکا ہے، جو کسی بھی وقت چھلک سکتا ہے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی ادارے اس ملک کے محافظ ہیں یہ وہ مجاہد ہیں جو ملک کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت جانیں ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں، وہ کسی کے ذاتی باڈی گارڈ اور ملازم نہیں ہیں۔ اب قائداعظم کے فرمان کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے اور اسی آڑ میں افواج پاکستان کو نیچا دکھانے کی پھر مذموم کوشش کی گئی ہے۔ قائداعظم نے جو فرمایا تھا وہ بالکل درست ہے لیکن یہ بھی بتایا جائے کہ کیا قائداعظم نے اپنے فرمان میں یہ کہا تھا کہ افواج پاکستان اگر کسی کی خواہشات جو غیر آئینی بھی ہوں، کی تکمیل کریں تو قابلِ احترام ہیں اور ایسا کرنے سےاگر انکار کریں تو ان اداروں کےخلاف بغاوت و نفرت پھیلانے اور کمزور کرنے کی مہم چلائی جائے۔ پوری قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ قوم کے دلوں میں اپنی فوج کے لئے بے پناہ عزت و احترام ہے اور قوم ملک و ملت کے لئے ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی قوم کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ ڈار آئے گا اور ڈالرز لائے گا کا نعرہ بھی جھوٹا اور وقتی دلاسہ ثابت ہوا۔ ابھی تک حکومت نے صرف اپنے کیسز ہی ختم کرائے ہیں۔ قوم کو کوئی معمولی سا ریلیف دیا ہو تو بتائیں۔ اس حکومت نے اپنا سیاسی مستقبل اور قوم کا حال تاریک کیا ہے، ملک دیوالیہ ہوا یا نہیں لیکن اس حکومت نے اپنے آپ کو سیاسی اور قوم کو معاشی طور پر ضرور دیوالیہ کردیا ہے۔ اب جو لوگ قبل از وقت الیکشن کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ ملک کو مزید معاشی بربادی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ موجودہ حالات کے پیش نظر تو الیکشن اگلے سال بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ کوئی اگر اس ملک سے مخلص ہے تو پہلے ملک کی معیشت کو بحال کیا جائے ورنہ باقی تمام دعوے اور وعدے باطل ہیں۔ ملک معاشی طور پر دگرگوں صورتحال سے دوچار ہے۔ ملک دشمن طاقتیں اور عناصر ایک بار پھر امن و امان کی صورتحال کو خراب کر رہے ہیں۔ پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور اداروں کو بے مقصد الجھائو میں مبتلا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اداروں اور اعلیٰ قیادت پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اوروہ ان سے واقف و باخبر ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں پھر ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایسی کوششوں کو ناکام بنانے اور ایسے عناصر کی سرکوبی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس ملک کے والی وارث موجود ہیں۔ خود سے باز آنا ہی بہتر ہوگا کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین